چین میں ایک سے زائد بچے کا مقدر جبری اسقاط حمل
9 جنوری 2014گرچہ پانچویں ماہ کے بعد حمل کے اسقاط پر قانونی پابندی عائد ہے تاہم اکثر و بیشتر ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں پانچ ماہ یا اس سے بھی زیادہ کا حمل جبری طور پر ختم کروا دیا جاتا ہے۔
جبری اسقاط حمل کی الم ناک کہانی
اس کی ایک تازہ ترین مثال 25 سالہ چینی خاتون گونگ کی فنگ کی ہے۔ گونگ اپنے دوسرے بیٹے کی ماں بننے والی تھی کہ اُس کے ساتھ وہ بہیمانہ سلوک ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ کہتی ہے کہ اُسے صرف اتنا یاد ہے کہ کئی لوگ مل کر اُسے ہسپتال کے بستر پر لٹا کر اُس ٹیکے کی سوئی اُس کے شکم میں گھونپنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے ذریعے جسم میں پہنچنے والی دوا اُس کے بچے کے قتل کا باعث بنی۔ اُس کے بقول اُس کے ساتھ کیا جانے والا جبر اتنا ظالمانہ تھا کہ وہ ذہنی مریضہ ہو چُکی ہے۔ اُسے یاد ہے کہ اُس کے سر، بازوؤں، گھٹنوں اور ٹخنے کو باقائدہ پنوں سے جکڑ کر اُن کے ساتھ یہ ظالمانہ کارروائی کی گئی تھی۔ 35 گھنٹوں کے کرب آمیز تشدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ گونگ کا بیٹا اسقاط حمل کے ذریعے مردہ پیدا ہوا۔ گونگ نے بیجینگ میں حال ہی میں پریس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’وہ میری زندگی کا شدید ترین درد تھا۔ اتنی تکلیف تو ماں بچے کو جنم دیتے وقت بھی محسوس نہیں کرتی۔ اُس درد کا حال بیان سے باہر ہے۔ یہ میرے جسم سے زیادہ میری روحانی اور ذہنی تکلیف بن چُکا ہے۔ میں خود بس ایک زندہ لاش ہوں۔"
گونگ کے ساتھ پیش آنے والے جبری اسقاط حمل کے اس بھیانک واقعے کو دو سال کا عرصہ بیت گیا۔ اب وہ ذہنی عارضے شیزوفرینیا کا شکار ہے۔
جبری اسقاط حمل کے واقعات کو آشکار کرنے کا سلسلہ
چین میں 2012 ء میں جون کے ماہ میں جبری اسقاط حمل کے خلاف عوامی سطح پر شورشرابا اُس وقت بہت زیادہ بڑھ گیا جب شمال مغربی صوبے شان شی میں آباد فنگ جیانمائی فیملی نے جبری اسقاط حمل کے نتیجے میں مردہ پیدا ہونے والے اپنے سات ماہ کے بچے جنین کی تصویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دی۔ اس کے نتیجے میں چین سمیت عالمی میڈیا میں اس غیر انسانی سلوک کے خلاف بڑی لے دے ہوئی اور بیجنگ حکومت پر غیر معمولی دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ملک میں ہونے والے جبری اسقاط حمل کے واقعات کا سختی سے نوٹس لے۔ فنگ خاندان جس علاقے میں آباد ہے وہاں کی مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کو یا تو فارغ کر دیا گیا یا اُن کی مُذمت کی گئی۔ مقامی حکومت نے فنگ فیملی کو 70 ہزار یوان یا 11 ہزار چار سوُ ڈالر رقم ادا کی۔ تاہم کسی کے خلاف کوئی مجرمانہ مقدمہ نہیں چلایا گیا اور لوکل گورنمنٹ نے اس خاندان کو دی جانے والی رقم تلافی یا معاوضے کے طور پر نہیں بلکہ بطور امداد دینے کا اعلان کیا۔
مقتول جنینوں کی تصاویر کی نمائش
بیجنگ میں مقیم ایک چینی فن کار وانگ پینگ نے چوری چھُپے جبری اسقاط حمل کے سبب برآمد ہونے والے چار جنینوں کو اپنے گرافک آرٹ کا موضوع بنایا اور انہیں بیجنگ میں 2013 ء میں محدود نمائش کے لیے بروئے کار لایا۔ تاہم یہ نمائش عوام کے لیے نہیں ہے اور جس جگہ اسے رکھا گیا ہے وہ بھی خفیہ مقام ہے۔ چینی آرٹسٹ وانگ پینگ کا کہنا ہے کہ اُس کی ذاتی دعوت پر قریب 100 لوگوں نے ان عبرتناک تصاویر کا دیدار کیا ہے۔ وانگ کہتے ہیں، "چین کی جبری اسقاط حمل کی پالیسی ایک عورت کے ماں بننے کے پیدائشی حق کی تلفی ہے، وہ حق جو اُسے قدرت نے عطا کیا ہے۔ یہ انسانی زندگی کی تضحیک ہے" ۔
چین میں اس طرح کے کیسز کی تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔ جو متاثرہ افراد اپنے ساتھ بیتنے والی اسی قسم کی کہانی منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے ہیں ان کی زبان یا تو دھمکیوں یا پھر پیسوں سے بند کر دی جاتی ہے۔
قول و فعل کا تضاد
بیجنگ حکومت نے گرچہ گزشتہ نومبر میں اپنی "ون چائلڈ پالیسی" یا ایک بچہ پیدا کرنے سے متعلق پالیسی میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے تحت جوڑوں کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت دینے کا تاثر دیا گیا تاہم اس سے عملی طور پر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیوں کہ اس پالیسی کے تحت محض اُن جوڑوں کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت دی گئی جن میں ماں اور باپ دونوں اکلوتے ہوں یا ان کا کوئی دوسرا بھائی بہن نہیں ہو۔
شنگھائی آکیڈمی آف سوشل سائنسس سے منسلک ایک ماہر آبادیات لیانگ ژوتُنگ کہتے ہیں، ’’نئے نظام میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ یہ ابھی بھی آپ کو ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر آپ حکومتی پالیسیوں کے برخلاف زیادہ بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو جبری اسقاط حمل کے لیے تیار رہیں" ۔