پاکستان میں ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘: ایک جائزہ
23 اگست 2016سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی معاشرے میں یہ رواج بننے کے پس پردہ محرکات کیا ہیں۔
یک غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ برس قریب 1،100 خواتین کو محبت اور پسند کی شادی کے معاملات پران کے رشتہ داروں نے مبینہ طور پر سماجی اقدار کی خلاف ورزی کرنے اور اپنے خاندانوں کی بدنامی کا سبب بننے کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔ اسی برس پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور میں پروین رفیق نامی خاتون نے اپنی بیٹی زینت رفیق کو خاندان کی مرضی کے بغیر اپنی پسند سے شادی کرنے کے جرم میں آگ لگا کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے سے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس قسم کے واقعات پاکستان میں نئی بات نہیں ہیں۔ زینت رفیق کا کیس گزشتہ چند ماہ میں ہوئے ایسے کئی واقعات کے سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں انیس سالہ اسکول ٹٰیچر ماریہ بی بی کو اس لیے آگ لگا دی گئی تھی کیوں کہ اس نے اپنی عمر سے دوگنے شخص سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اسی برس ہی پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ میں ایک مقامی قبائلی کونسل نے مبینہ طور پرایک سترہ سالہ لڑکی کو اپنی سہیلی اور اس کے دوست کو بھاگنے میں مدد فراہم کرنے پر گلا گھونٹ کر مارنے کے بعد آگ لگا دی تھی۔
خواتین کی ہلاکت سے متعلق خبروں کی رپورٹنگ میں اضافہ ہؤا ہے
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’حالیہ برسوں میں پولیس اور میڈیا کی جانب سے ایسے واقعات کی رپورٹنگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس سے اس معاملے میں عوامی شعور بیدار کرنے میں مدد ملی ہے ۔‘‘
طاہرہ عبداللہ نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ملک میں اعتدال پسند قوتیں کمزور پڑ رہی ہیں اور ملکی سیاست اور قوانین کی تشکیل میں مذہبی انتہا پسندوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔
ناقدین کی رائے میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف 2004ء میں پاکستانی پارلیمنٹ نے جو قانون منظور کیا تھا اسے اب تک درست طور پرلاگو نہیں کیا گیا۔ مزید بر آں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا ماننا ہے کہ اگر اس قانون کو مکمل طور پرنافذ کر بھی دیا جائے تب بھی یہ قتل جیسے جرائم کی روک تھام کے لیے نا کافی ہے۔
ایک سامجی کارکن اور فلم ساز ثمر من اللہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا
کہ ’’ قوانین کے نفاذ سے صورت حال اس وقت تک تبدیل نہیں ہو گی جب تک خواتین کے حوالے سے معاشرے کے رویے میں مثبت تبدیلی نہ آ جا ئے۔‘‘
میڈیا اور مذہبی اداروں کا کردار
انسانی حقوق کے لیے سر گرم عمل کارکن ملکی ذرائع ابلاغ کو بھی جزوی طور پر خواتین کے حوالے سے متشدد رویوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان سماجی کارکنان کا موقف ہے کہ بعض ٹی وی پرگراموں میں عورت کو معاشرے کے ایک بے بس اور مطیع فرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ میڈیا اکثر نا دانستہ طور پر قاتلوں کو معاشرے کے سامنے مثبت انداز میں پیش کرتا ہے۔ عبداللہ کی رائے میں مثبت واقعات کی خبریں دینا بہت اہم ہے۔’’سوسائٹی کو یہ پیغام دینا بہت اہم ہے کی غیرت کے نام پر قتل کرنے میں عزت نہیں ہے۔‘‘ سماجی کارکن ثمر من اللہ بھی ایسی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے مناسب اور کافی اقدامات نہ اٹھانے کے لیے ملکی مذہبی جماعتوں اور مذہبی سکالرز کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان میں شکایات سیل کے سر براہ زمان خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت خواتین کے حقوق پر بات چیت کو ترجیح نہیں دے رہی۔ زمان خان نے کہا کہ حکومت کی جانب سےخواتین کی حیثیت پر قومی کمیشن کے لیے گزشتہ چھ ماہ سے اب تک سربراہ مقرر نہیں کیا گیا۔ تاہم خواتین کے ملک میں با اختیار ہونے کے حوالے سے خان کافی پر امید ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ’’ مجھے یقین ہے کہ بالآخر جیت خواتین ہی کی ہو گی۔ پاکستان میں ایک سست رو اور خاموش انقلاب جنم لے رہا ہے۔ تمام معاشی پس منظروں سے تعلق رکھنے والی خواتین اب گھروں سے باہر نکل رہی ہیں اور کام کر رہی ہیں۔ اور ’’جب ایک عورت معاشی طور پر با اختیار ہو جائے تو اس کی آواز کو دبانا آسان نہیں۔‘‘