پاکستان میں فوجی عدالتیں: مدت پوری ہونے کے بعد توسیع پر بحث
10 جنوری 2017اس مسئلے پر بات چیت کے لیے آج اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹیوں کا ایک اجلاس ہوا۔ ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت سے عدالتی اصلاحات اور فوجی عدالتوں کی کارکردگی کے حوالے سے کئی سوالات پوچھے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں نون لیگ کی حکومت اس مسئلے پر ابھی تک کوئی متفقہ رائے قائم نہیں کر سکی۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے اہم رہنما اور صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پہلے ان ملٹری کورٹس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور بعد میں انہیں ان عدالتوں کے قیام سے حاصل شدہ فوائد بھی نظر آنے لگے۔
پاکستان میں مارشل لاء کے دور میں فوجی عدالتوں کے خلاف لڑنے والی وکلاء برادری میں بھی کچھ افراد ان عدالتوں کے فوائد گنواتے دکھائی دیتے ہیں۔ معروف قانون دان بیرسڑ فروغ نسیم نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیوکوبتایا، ’’ملک میں دہشت گردی کی ایک لہر تھی، امن و امان کی صورت حال مخدوش تھی، فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد سے ان حالات میں بہت بہتری آئی ہے۔ لہٰذا اگر مشن تاحال مکمل نہیں ہوا، تو اس کو تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں فروغ نسیم نے کہا، ’’یہ عدالتی مثال موجود ہے کہ اگر کسی قانون کو آئینی ترمیم کے ذریعے لایا جاتا ہے، تو اس کی قانونی حیثیت واضح ہے۔ پہلے بھی اس کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی متعارف کرایا گیا تھا۔ اور اگر اب بھی اس کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی متعارف کرایا جاتا ہے، تو اس کی قانونی حیثیت واضح ہوگی۔ تاہم اس پر بار کونسل کا اجلاس بھی ہوگا، پھر ان کا نقطہ نظر کھل کر سامنے آئے گا۔‘‘
تاہم کئی وکلاء ایسی عدالتوں کے قیام کو جمہوری اور آئینی اصولوں کے خلاف بھی قرار دیتے ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین لطیف آفریدی نے ان فوجی عدالتوں کے حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ان عدالتوں کی مدت میں توسیع پاکستان کے آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہیں دو سال کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اب بس، اب تو مدت ختم ہوگئی ہے۔حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ان عدالتوں کو قائم کیا تھا۔ اگر ملٹری کورٹس کے ججوں، وکلاء اور عملے کو تحفظ دیا جا سکتا ہے، تو سول عدالتوں کو یہ سہولیات کیوں نہیں دی جا سکتیں۔ انہیں یہ تمام سہولیات فراہم کریں اور پھر ان کی کارکردگی پر تنقید کریں۔ میں تو یہ پوچھتا ہوں کہ کون سا کارنامہ کیا ہے ان عدالتوں نے؟ کیا انہوں نے فضل اللہ، منگل باغ اور دوسرے طالبان رہنماؤں کو سزائیں سنا دی ہیں؟ میری معلومات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے پانچ ہزار دہشت گرد حکومت کی حراست میں ہیں، ان کو ان فوجی عدالتوں نے سزائیں کیوں نہیں سنائیں؟‘‘
لیکن ان عدالتوں کے حامی ملٹر ی کورٹس کے طریقہء کار کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس حوالے سے معروف تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ملٹر ی کورٹس صرف انہی مقدمات کو سن سکتی ہیں، جو انہیں وزارت داخلہ نے بھیجے ہوں۔ دو سال میں ان عدالتوں نے 161 افراد کو سزائے موت سنائی جبکہ 113 ملزمان کو قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں سے کئی اپیلیں کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ صحیح معنوں میں ملٹر ی کورٹس ہیں ہی نہیں، کیونکہ ایسی عدالتوں میں اپیل بھی فوجی افسر ہی سنتے ہیں۔ یہاں تو اپیل کا معاملہ ہائی کورٹ میں چلا جاتا ہے، جہاں پھر کافی وقت لگ جاتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں امجد شعیب نے کہا، ’’فوج نے ان عدالتوں کی مدت میں توسیع نہیں مانگی تھی۔ حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ہی یہ عدالتیں قائم کی تھیں۔ اب حکومت بتائے کہ اس نے دو سال میں کون سی عدالتی اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ عدالتوں میں تو اب بھی کئی کئی سال تک مقدمات زیر سماعت رہتے ہیں۔ مجرم چھوٹ جاتے ہیں یا پھر کچھ واقعات میں جیل تک توڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔‘‘
ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے سیاسی جماعتوں کی ممکنہ حمایت کے حوالے سے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر سیاسی جماعتوں نے اس بار ان عدالتوں کی حمایت کی تو یہ جمہوریت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔سول سوسائٹی، عدلیہ، وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سبھی ان عدالتوں کے خلاف ہیں تو سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کیسے کر سکتی ہیں؟‘‘