پاکستان میں نیٹو سپلائی ٹرکوں کے ڈرائیوروں کے خدشات
12 جنوری 2012پاکستان سے نیٹو کے یہ سپلائی ٹرک لے کر افغانستان کے اندر تک جانے والے اکثر پاکستانی ڈرائیوروں کا تعلق پاکستانی قبائلی علاقوں سے ہوتا ہے۔ انہیں اپنے کام کے بہت خطرناک ہونے کا ہر وقت احساس رہتا ہے۔ سفر کے دوران وہ جب کبھی بھی سستانے یا شب بسری کے لیے رکتے ہیں، تو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں ان میں سے چند ایک ایسے گیت گانے لگتے ہیں جن میں گھر اور اپنے عزیزوں سے دوری کا ذکر ہوتا ہے۔
ایسے بہت سے ڈرائیور گزشتہ برس نومبر کے آخر سے کراچی سے لے کر افغان سرحد تک مختلف علاقوں میں اس وجہ سے رکے رہنے پر مجبور ہیں کہ پاکستانی حکومت نیٹو کے ایک فضائی حملے میں اپنے چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان کے راستے افغانستان میں نیٹو دستوں کے لیے سپلائی روٹ معطل کر چکی ہے۔ پاکستان سے سپلائی لے کر افغانستان جانے والے ٹرکوں اور آئل ٹینکروں کو اکثر عسکریت پسندوں کے خونریز حملوں کا سامنا رہتا ہے۔
طالبان کی طرف سے ایسے حملے زیادہ تر درہء خیبر کے علاقے میں کیے جاتے ہیں۔ پچھلے سال ایسے حملوں میں دو سو کے قریب آئل ٹینکر تباہ کر دیے گئے تھے اور سینکڑوں دوسری بڑی بڑی مال بردار گاڑیوں کو شدت پسندوں نے آگ لگا دی تھی۔ ایسے ٹرک یا ٹرالر چلانے والے ڈرائیوروں کو یہ احساس رہتا ہے کہ ان کا پیشہ بہت خطرناک ہو چکا ہے لیکن ان میں سے اکثر کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے کیونکہ انہیں روزگار کے حوالے سے شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
پاکستان کے راستے نیٹو کا سامان رسد افغانستان لے کر جانے والے اور یہ سپلائی روٹ کھولے جانے کے منتظر ایسے سینکڑوں پاکستانی ڈرائیوروں میں سے ایک اٹھارہ سالہ نعمت خان بھی ہے۔ نعمت خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’ہمارا کام خطرناک ہے۔ لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔‘
نعمت خان نے کہا، ’اب کوئی بھی شخص مجھے مزید ادھار دینے پر تیار نہیں ہے۔ نیٹو کا سامان رسد لے کر افغانستان جانے سے مجھے جو رقم ملتی ہے وہ میری اور میرے خاندان کی واحد آمدنی ہے۔‘ نعمت خان نے بتایا کہ کراچی سے افغان دارالحکومت کابل کے نزدیک بگرام کے ہوائی اڈے تک ٹرک لے کر جانا اور پھر وہاں سے واپس کراچی پہنچنا اتنا لمبا سفر ہے کہ اس میں تقریباﹰ ایک مہینہ لگ جاتا ہے۔ اس نوجوان ڈرائیور کے بقول کراچی سے بگرام تک کا ایک چکر لگانے سے ایک عام ڈرائیور کو اوسطاﹰ ایک ہزار امریکی ڈالر تک کی آمدنی ہوتی ہے۔
ایسے ہی ایک اور ڈرائیور خورشید خان کی عمر بیس برس ہے اور وہ ایک آئل ٹینکر چلاتا ہے۔ خورشید خان نے کہا کہ ہر جگہ ہی بہت پُرخطر نہیں ہوتی۔ اتنے طویل راستے میں کون کون سی جگہ عسکریت پسندوں کے ممکنہ حملوں کے حوالے سے زیادہ خطرناک ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی ڈرائیور کس وقت کہاں سے گزر رہا ہے۔
ان ڈرائیوروں میں سے کئی نظریاتی طور پر ان پاکستان طالبان کے ہم خیال بھی ہوتے ہیں جن کے حملوں کا خود ان کو بھی سامنا بھی رہتا ہے۔ ایسے چند ایک ڈرائیوروں نے یہ کہا کہ نیٹو کے دستوں کے لیے ٹرک چلانا ان کی رائے میں کسی حد تک ان کے عقیدے کے خلاف بھی جاتا ہے لیکن وہ ایسا کرنے پر اس لیے مجبور ہے کہ زندہ رہنے کے لیے ان کے پاس آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان قبائلی علاقے میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے ایک سر گرم کارکن شبیر احمد کے بقول اکثر ڈرائیوروں کا تعلق پاکستان یا افغانستان کے سرحدی قبائلی علاقوں سے ہوتا ہے اور وہ کراچی سے بگرام تک نیٹو فوجیوں کے لیے اشیائے ضرورت کی مال برداری کا خطرناک کام اس لیے کرتے ہیں کہ دوسری صورت میں انہیں کوئی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے فاقوں کا خطرہ رہتا ہے۔
رپورٹ: مدثر شاہ / عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک