امریکہ کی جانب سے امداد منجمد کرنے پر پاکستان کی برہمی
16 دسمبر 2011امریکہ کی جانب سے یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب نومبر کے اواخر میں نیٹو کے حملے میں چوبیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں اتحادیوں کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی کانگریس کا یہ فیصلہ حقائق کے منافی ہے اور مجموعی صورت حال کے تنگ نظری سے لیے گئے جائزے پر مبنی ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان نے بدھ کو پاکستانی امداد منجمد کرنے کے ایک بل کی منظوری دی تھی اور جلد ہی سینیٹ میں بھی اس حوالے سے رائےشماری متوقع ہے۔
قانون سازی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد منجمد کر دی جائے گی۔ امریکہ یہ امداد پاکستان کو عسکریت پسندوں کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کے لیے دے رہا ہے جو افغانستان میں امریکی زیر قیادت اتحادی افواج کے خلاف کارروائیوں میں سرگرم ہیں۔
امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نےکہا کہ اگر اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی ہو جاتی ہے تو اس کے بعد بھی امریکہ پاکستان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکومت سے تعاون جاری رکھے گا، تاہم اس کے لیے ایک سٹریٹیجک منصوبہ بندی کی ضرورت پڑے گی۔
نیٹو کے حملے میں چوبیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان نے افغانستان میں نیٹو کے لیے اہم ترین سپلائی لائن بند کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے امریکی اہلکاروں سے شمسی ایئر بیس بھی خالی کرا لی ہے جس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہاں سے ڈرون طیارے اڑتے تھے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے رہا ہے، تاہم پاکستانی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے قبل اس حوالے سے کسی بھی قسم کے اعلانات سے گریز کیا ہے۔
پاکستان کی طاقتور فوج امریکہ کے حوالے سے وضع کی جانے والی کسی بھی پالیسی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ فوجی قیادت نے افغان سرحد پر اپنے فضائی دفاعی نظام کو بھی متحرک کر دیا ہے جہاں حکام کے مطابق ایک لاکھ ساٹھ ہزار فوجی تعینات ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کے وزیر دفاع لیون پینیٹا نے بھی گزشتہ روز پاکستان کی سرحد کے نزدیک افغان علاقے میں تعینات امریکی فوجی اہلکاروں سے ملاقات کی اور اسلام آباد حکومت پر سرحدی علاقوں میں طالبان کے خلاف مؤثر کارروائی پر زور دیا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا یہ بھی کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ سرحد پار افغانستان میں اب تک کیا مؤثر اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں کمزور پہلوؤں اور کوتاہیوں کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھرایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: حماد کیانی