پاکستان نے تعاون کسی حد تک بحال کر دیا ہے، نیٹو
1 دسمبر 2011مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مطابق سرحد کے قریب گشت کرنے والی امریکی فوج پر منگل کی شب پاکستانی سرحد کے قریب سے فائرنگ کی گئی اور مارٹر گولے برسائے گئے۔ امریکی ترجمان لیفٹیننٹ کمانڈر برائن بادورا کے مطابق امریکی فوجیوں نے بھی اپنا دفاع کرتے ہوئے اس فائرنگ کا جواب دیا۔ تاہم اس سے قبل پاکستانی فوج سے رابطہ کر کے یقین دہانی کر لی گئی کہ اس واقعے میں پاکستانی فوج ملوث نہیں ہے۔ اس واقعے کے بارے میں نیٹو یا پاکستان کی طرف سے کسی ہلاکت کا ذکر نہیں کیا گیا۔
نیٹو کے ایک ترجمان جرمن بریگیڈیئر جنرل کارسٹن جیکب سن نے بدھ کے روز کابل میں امید ظاہر کی کہ افغان صوبے پکتیا میں حادثے سے بچنے کے لیے پاکستان کا تعاون اس بات کا اشارہ ہے کہ فریقین حالیہ سانحے کے باعث پیدا ہونے والے حالات پر قابو پا لیں گے۔ جیکب سن کے مطابق: ’’ہمارے آپریشن جاری ہیں اور یہ بات بہت اہم ہے کہ ہفتے کے روز ہونے والے افسوسناک واقعات سے سرحدی علاقے میں ہماری اس صلاحیت اور پاکستان سے تعاون میں فرق نہیں پڑا۔‘‘
دوسری طرف امریکہ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستانی فوج پر حملہ دانستہ نہیں تھا۔ امریکی فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ یہ معاملہ سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن کھلے عام اس کا تصفیہ نہیں چاہتے۔
امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: ’’ایک بات جو میں کھلے عام اور صاف صاف کہوں گا، وہ یہ ہے کہ یہ حملہ دانستہ نہیں تھا۔‘‘ روئٹرز کے مطابق جنرل ڈیمپسی کا یہ مؤقف پاکستانی فوج کے ایک اعلیٰ اہلکار کے بیان کا ردِ عمل ہے، جس میں انہوں نے ہفتے کے اس حملے کو دانستہ قرار دیا تھا۔
پینٹا گون کے ترجمان جارج لٹل نے بھی بدھ کو صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ ہفتے کو افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر جو بھی ہوا، وہ ایک دُکھ بھرا واقعہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن انتظامیہ اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جانوں کے ضیاع پر تعزیت کر چکی ہے۔ جارج لٹل نے کہا کہ اسے کسی بھی طرح امریکہ کی جانب سے پاکستان پر دانستہ حملہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اُدھر پاکستان ہفتے کے حملے کے ردِ عمل میں افغانستان کے موضوع پر جرمنی میں ہونے والی کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکا ہے۔ اسلام آباد حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ان کا فیصلہ حتمی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی