’پاکستان پٹھان کوٹ واقعے کی تیز رفتار تحقیقات کر رہا ہے‘
10 جنوری 2016جیسا کہ پاکستانی سربراہِ حکومت کے دفتر کی جانب سے ہفتے کو دیر گئے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ، نواز شریف کی جانب سے یہ یقین دہانی ٹیلیفون پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو کروائی گئی۔ کیری نے نواز شریف کے ساتھ گفتگو میں اس امید کا اظہار کیا کہ گزشتہ ہفتے پاکستانی سرحد کے قریب واقع بھارتی ایئر بیس پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا وہ عمل متاثر نہیں ہو گا، جو کہ خطّے کے بہترین مفاد میں ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی اڈے پر ہونے والے اس حملے کے باعث، جس کے لیے بھارت ممکنہ طور پر پاکستان میں موجود عسکریت پسند گروپوں کو قصور وار قرار دیتا ہے، ان دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان رواں ماہ مجوزہ بات چیت کا انعقاد شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’وزیر اعظم نے امریکی وزیر خارجہ کیری کو بتایا کہ پاکستان شفاف طریقے سے اور تیز رفتاری کے ساتھ تحقیقات کے عمل کو آگے بڑھا رہا ہے اور جلد ہی سچائی کو سامنے لے آئے گا‘۔ مزید یہ کہ ’دنیا دیکھے گی کہ اس معاملے میں ہم کس قدر مستعد اور مخلص ہیں‘۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے خارجہ امور کے سیکرٹریز کی ملاقات تاحال پروگرام کے مطابق پندرہ جنوری کو ہو گی تاہم ابھی یہ بات غیر واقح ہے کہ آیا یہ ملاقات واقعی عمل میں بھی آئے گی۔ اس بے یقینی کی وجہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دو جنوری کو ہونے والا وہ حملہ ہے، جس میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے سات اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ہونے والے اس حملے کے بعد اس اڈے کو مکمل طور پر محفوظ بنانے میں چار روز تک کا عرصہ لگ گیا تھا۔ اس حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اُن عسکریت پسندوں کے خلاف ’فوری اور فیصلہ کن‘ کارروائی کرے، جو بھارت کے خیال میں اس حملے میں ملوث ہیں۔
بھارت ایک طویل عرصے سے یہ الزام عائد کرتا چلا آ رہا ہے کہ اسلام آباد حکومت عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کرتی ہے اور بھارت کے اندر حملے منظم کرنے کے سلسلے میں اُن کی مدد کرتی ہے۔ پاکستان اس طرح کے الزامات کو مسلسل رَد کرتا چلا آ ر ہا ہے۔
نو جنوری ہفتے کے روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی مشرقی ریاست پنجاب میں واقع پٹھان کوٹ ایئر بیس کا دورہ کیا، جہاں اُنہیں تفصیل کے سات آاہ کیا گیا کہ کیسے سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کی جانب سے حملے کا سامنا کیا۔
تاحال یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ حملہ آور اس بیس کے اندر داخل کیسے ہوئے۔ یہ چھاؤنی کئی کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کا ایک بڑا علاقہ جنگلات پر محیط ہے۔ پٹھان کوٹ کا علاقہ پاکستان سرحد سے تقریباً پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس کی سرحدیں ریاست جموں کشمیر سے بھی ملتی ہیں۔