پاکستان کے لئے امریکی امداد، بھارت کا ردعمل
9 جون 2010جنوبی ایشیا کے لئے امریکی نائب سیکریٹری رابرٹ بلیک نے کہا ہے کہ گوکہ اس امداد پر بھارت کو پہلے کچھ تحفظات تھے لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ انہوں نے کہا:’’ مستحکم پاکستان میں ہمارے مشترکہ مفادات پنہاں ہیں۔ بھارت یقینی طور پراس بات سے باخبر ہے کہ پاکستان میں بگڑتے ہوئے حالات، بھارت کے مفاد میں نہیں ہیں‘‘
امریکہ اور بھارت نے دو طرفہ تعلقات میں مزید بہتری لانے کے لئے ابھی حال ہی میں اسٹریٹیجک مذاکرات کیے ہیں۔ ان مذاکرات میں صدر باراک اوباما نے جنوبی ایشیا میں پائیدارامن کے لئے پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات پر بھی اپنی توجہ مرکوزرکھی۔
گزشتہ سال امریکہ نے پاکستان میں اقتصادی ترقی اورجمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے سات اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کے ایک امدادی منصوبے کا اعلان کیا تھا۔اس امداد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔
منگل کو رابراٹ بلیک نے اعتراف کیا کہ بھارت کواس امداد پرکچھ تحفظات تھے، تاہم انہوں نے کہا’’ میرا خیال ہے کہ بھارت بخوبی سمجھتا ہے کہ ہم پاکستان میں ’کاونٹرانسرجنسی‘ کے نظام کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
بلیک نے مزید کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ جو ہتھیار پاکستان کو دیے گئے ہیں، وہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
پاکستانی قبائلی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف حکومتی عسکری کارروائی پر امریکی حکام نے اطمئنان کا اظہار کیا ہے، تاہم ساتھ ہی امریکہ نے حکومت پاکستان پر یہ دباؤ بھی ڈالا ہے کہ وہ بھارت مخالف عسکری تنظیموں کے خلاف بھی اپنی کارروائی میں تیزی لائے۔ لشکر طیبہ ایسی ہی ایک کالعدم عسکری تنظیم ہے، جس پرالزام ہے کہ وہ ممبئی حملوں میں ملوث تھی۔
امریکہ اور بھارت کے مابین ہونے والے اسٹریٹیجک مذاکرات کے دوران واشنٹگن حکام نے بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا کو یہ یقین دہانی کروائی کہ امریکہ ایسا کچھ نہیں کرے گا، جو بھارتی مفادات کے خلاف ہو۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عدنان اسحاق