پاکستان کے لیے قرض کے وعدے: امداد آخر کیسے استعمال ہو گی؟
10 جنوری 2023کچھ ناقدین ان قرضوں سے کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ قرضے آئی ایم ایف کی شرائط سے مشروط ہیں، جس کے ملک اور عوام پر تباہ کن اثرات ہوں گے۔
قرضہ کب ملے گا
خیال کیا جارہا ہے کہ یہ قرضے اور گرانٹس اگلے تین برسوں میں پاکستان کو مل جائیں گے۔ تاہم معاشی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان نے اپنا ہوم ورک وقت پر نہیں کیا، تو پھر اس رقم کے آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کے بقول پاکستان میں عموما پروجیکٹس کے حوالے سے کام بہت سست ہوتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ پیسہ آنے میں وقت لگ جائے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان کو اپ فرنٹ ادائیگی ہو تاکہ وہ جلد از جلد سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کام کر سکے لیکن کیونکہ حکومتی کاموں میں تاخیر ہوتی ہے، اس لیے اس رقم کے پہنچنے میں بھی تاخیر ہو گی۔‘‘
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''رقم کی ادائیگی کی مدت تین برس ہے لیکن اس میں ممکنہ طور پر چار سے ساڑھے چار سال لگ سکتے ہیں۔‘‘
زر مبادلہ کے ذخائر
سلمان شاہ کا مزید کہنا ہے کہ امداد کے آنے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، ''عالمی مالیاتی ادارے یا پیسے دینے والے ممالک کی طرف سے ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی کہ اس رقم کو کہاں رکھنا ہے۔ یقینا یہ پیسے ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی کی شکل میں آئیں گے، جنہیں اسٹیٹ بینک میں رکھوایا جائے گا۔ اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔‘‘ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آٹھ بلین ڈالرز چاہیے تھے۔ لیکن پاکستان کو 10 بلین ڈالرز کا وعدہ کیا گیا ہے، تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اس سے یقیناً بڑھیں گے۔
کیا یہ زرمبادلہ کے ذخائر دیرپا ہوں گے؟
سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ یہ رقم زیادہ تر سڑکوں، گھروں، پلوں، عمارتوں کی تعمیر اور دیگر تعمیر نو کے منصوبوں پر استعمال ہو گی، ''حکومت پروجیکٹس ڈیزائن کرتی ہے اور اس کے تمام تر لوازمات پورے کرتی ہے۔ پھرامداد یا قرضہ دینے والے ممالک و ادارے ان منصوبوں کی منظوری دیتے ہیں اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ مانیٹرنگ سسٹم ان کا قائم کیا جائے۔‘‘
سلمان شاہ کا کہنا تھا اگر حکومت کو اگر بڑے پیمانے پر اشیاء درآمد کرنی پڑیں، تو پھر زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو جائیں گے، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم کوئی پروجیکٹ بنا رہے ہیں تو اس میں کنسلٹنٹس ہمارے اپنے ہونے چاہییں، فزیبلٹی رپورٹ بھی پاکستانی فرم کو ہی تیار کرنا چاہیے جب کہ سامان بھی ہماری اپنی صنعتوں کا ہونا چاہیے، اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر ذخائر متاثر ہوں گے۔‘‘
گرانٹس کیسے استعمال ہوتی ہے
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ڈویلپمنٹ سیکٹر کے ماہر عامر حسین کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ یا یورپی ممالک جو گرانٹس دیں گے، وہ ان کے اپنے اداروں یا این جی او کے ذریعے استعمال ہو گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں اگر امریکا کوئی گرانٹ دے گا، تو ممکنہ طور پر یو ایس ایڈ یا کسی اور بین الاقوامی این جی او کے ذریعے کام کرایا جائے گا۔ بالکل اسی طرح برطانیہ اور یورپی ممالک کے اپنے اپنے ادارے اور این جی اوز ہیں۔‘‘
عامر حسین کے مطابققرضوں میں سے بھی ایک چھوٹی سی رقم ٹریننگ اور تربیت کے لیے استعمال کی جاتی ہے، ''تاکہ مقامی عملے کی صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔‘‘
ممکنہ تباہ کن اثرات
جہاں حکومت اور مالی امور کے کچھ ماہرین کا ان قرضوں اور امداد کی آمد پر مثبت رد عمل ہے، وہیں کچھ معاشی امور کے ماہرین ان قرضوں کے پیچھے چھپے ہوئے طوفان کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 10 بلین ڈالرز سے زیادہ کے یہ قرضے آئی ایم ایف کی شرائط سے اور اس کے پروگرام سے مشروط ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا نہیں ہے کہ یہ بہت آسانی سے مل جائیں گے بلکہ ہمیں آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننی پڑیں گی، جن میں سرفہرست یہ ہے کہ ہمیں ڈالر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر ممکنہ طور پر تین سو روپے پر چلا جائے گا جب کہ انرجی کی قیمتوں اور شرح سود میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ جس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ پیداواری لاگت شرح سود کے بڑھنے سے آسمان سے بات کرے گی اور صنعتیں تباہ ہوں گی۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضے 130 بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں۔ سلمان شاہ اور شاہدہ وزارت دونوں کا خیال ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہو گا۔
کس نے کیا وعدہ کیا؟
پیر نو جنوری کو جنیوا کانفرنس میں مختلف ممالک اور علاقائی و عالمی مالیاتی اداروں نے ان قرضوں کا اعلان سیلابوں سے تباہ شدہ پاکستانی علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے کیا تھا۔اس سلسلے میں اسلامی ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے چار اعشاریہ دو بلین ڈالرز، عالمی بینک کی طرف سے دو بلین ڈالرز، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز، یورپی یونین کی طرف سے پانچ سو ملین یورو، فرانس کی طرف سے 380 ملین یورو، چین اور امریکہ کی طرف سے ایک ایک سو ملین ڈالرز، یو ایس ایڈ کی طرف سے سو ملین ڈالرز جب کہ جرمنی کی طرف سے 84 ملین یورو کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جاپان سمیت کئی دوسرے ممالک نے بھی امداد کا اعلان کیا ہے۔