پاک امریکہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ: کیا پایا کیا کھویا
23 اکتوبر 2010اپوزیشن اور بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پاکستان کے ساتھ محدود تعاون کا اعلان کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دفاع ، توانائی، صحت، تعلیم اور زراعت سمیت تیرہ شعبوں میں تعاون پر بات چیت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات چیت کے مثبت اثرات جلد ہی ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے ترجمان نے کہا کہ امریکی صدر باراک اوباما کا اگلے برس دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہونگے۔
اُن کے بقول'' مجموعی طور پر ہمارا امریکہ کے ساتھ ایک اچھا فریم ورک بن گیا ہے اور اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور جب امریکی صدر کا دورہ ہو گا تو ہم چاہیں گے کہ اس دورے کے نتیجے میں مزید اچھی چیزیں سامنے آئیں''۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کبھی دو طرفہ نہیں رہے بلکہ یہ صرف امریکی مرضی کے تابع ہے۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں ہونے والے اسٹریٹجک ڈائیلاگ میں پاکستانی وفد اپنا مقدمہ بہتر انداز میں پیش نہیں کر سکا۔ شمشاد احمد کے مطابق '' حکومت کے تمام محکموں کی نمائندگی تیرہ شعبوں کے ذریعے کر دی گئی ہے ۔ یہ کیسا اسٹر یٹجک ڈائیلاگ ہے اور جب آپ حکومت کی تمام کاروائی پر بات چیت کریں گے تو اس ڈائیلاگ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے چھ سال کیا ساٹھ سال چاہئے ہونگے ۔ میرے خیال میں تین چار اہم شعبوں پر ارتکاز کر کہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی۔''
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر مخدوم فیصل صالح حیات نے بھی ان مذاکرات کو محض فوٹو سیشن قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے بعد نہ تو پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ جاری کئے گئے اور نہ ہی بھارت کی طرز پر سول جوہری معاہدے پر بات چیت کی گئی۔
پاکستان کے لیے دو ارب ڈالر فوجی امداد کے امریکی اعلان پر فیصل صالح حیات کا کہنا تھا کہ اس امریکی اعلان نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں صرف فوج کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے اور اسے سویلین حکومت سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ'' پورے پاکستان کی نمائندہ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے بند کئے جائیں لیکن امریکہ نے اس کا قطعاً خیال نہیں رکھا اور بارہا اس نے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔''
دفاعی تجزیہ نگار اکرام سہگل کے مطابق پاکستان کے لئے نئی فوجی امداد کا اعلان اس بات سے مشروط معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اب شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بڑی اور فیصلہ کن فوجی کاروائی چاہتا ہے ۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: کشور مصطفیٰ