پاک امریکہ تعلقات میں مزید تلخی کا امکان
30 مارچ 2022وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کا نام لیے بغیر آج یہ انکشاف کیا کہ ’ان کی حکومت کے خلاف سازش انہوں نے کی، جنہوں نے پاکستان کو ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے کنٹرول کیا تھا۔‘ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نے اس انکشاف کے ذریعے سازش کا الزام امریکہ پر لگا دیا ہے اور اس الزام سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہوگی، جس سے ملک کے معاشی مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کچھ ناقدین کے خیال میں عمران خان کا اس طرح سفارتی امور پر عوام کے سامنے بولنا مناسب نہیں ہے لیکن کچھ کے خیال میں وزیر اعظم کا موقف اخلاقی طور پر درست ہے۔
واضح رہے کہ سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے کسی سینیئر امریکی حکومت کے عہدیدار کی ایک ٹیلی فون کال پر پاکستان کی افغان پالیسی کو تبدیل کردیا تھا۔ پاکستان نے انیس سو چھیانوے سے لے کر گیارہ ستمبر دوہزار ایک تک افغان طالبان کی حمایت کی تھی اور یہ ان تین ممالک میں سے تھا، جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
تاہم یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ برطانوی صحافی اووین بینٹ جونز اور چیٹہیم ہاؤس اور کیمبرج یونیورسٹی کی فرزانہ شیخ کی ایک کتاب کے مطابق بارہ ستمبر دوہزار صبح آٹھ بجے امریکی ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ رچرڈ آرمیٹیج نے پاکستان کے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل محمود سے واشنگٹن میں ملاقات کی، جو اس وقت اتفاق سے وہاں تھے اور ان کو یہ پیغام دیا کہ اسلام آباد طالبان حکومت اور امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ یہ پیغام جب جنرل مشرف کو دیا گیا تو انہوں نے فوری طور پر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم نے اسلام آباد میں آج ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر خط والی سازش کا ذکر کیا اور دعوٰی کیا کہ ان کے خلاف سازش کے پیچھے بیرونی پیسہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریتوں میں بحرانات آتے ہیں لیکن ان کے خلاف بحران کو درآمد کیا گیا ہے اور یہ کہ ان کے پاس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ اپنے اتحادیوں کو باری باری بلا کر وہ خط دکھائین گے۔
سفارتی امور میں ایسے بیانات مناسب نہیں ہیں
دفاعی مبصر جنرل امجد شیعب کا کہنا ہے کہ پاکستان کی امریکہ کے خلاف کئی شکایات جائز ہیں لیکن سفارتی معاملات پر اس طرح باتیں کھلے عام نہیں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بیان دیتے ہوئے کہا، ''ہمیں یہ سوچنا چاہیے ہمیں معیشت کو چلانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی مدد درکار ہے۔ یورپ اور امریکہ ہماری مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی ہیں۔ اگر ہماری ان سے شکایات ہیں تو ان کا اظہار ایک سفارتی انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سر عام بولنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔‘‘
جنرل امجد کے بقول پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی بہت خوشگوار نہیں ہیں۔ ''پہلے کسی صحافی نے اڈوں کے حوالے سے سوال کیا تھا عمران خان نے جواب میں کہا قطعاً نہیں۔ حالانکہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ ابھی امریکہ نے مانگے نہیں ہیں جب مانگے گا تو ہم اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں گے۔ تو ہمیں اس انداز سے بات کہنی چاہیے کہ ہمارے لیے مسئلہ نہ پیدا ہو اور کسی کی ناراضگی بھی نہ ہو۔ خدشہ ہے کہ اس طرح کے بیانات سے پاک امریکہ تعلقات میں مزید تلخی آئے گی۔‘‘
عمران خان نے بالکل صیح کیا
ملک کے کئی حلقوں میں قومی مفادات کے حوالے سے عمران خان کے 'جراتمندانہ بیانات‘ کی تعریفیں بھی ہورہی ہیں۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے عوام کو آگاہ کر کے بالکل ٹھیک کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جس قوم نے عمران خان کو منتخب کیا ہے، عمران نے ان کے سامنے سارے معاملات رکھ دیے۔ امریکہ پاکستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت چاہتا ہے، جو نوے کی دہائی کی طرح امریکہ سے ڈرتی رہے لیکن عمران خان ڈرنے والا نہیں ہے اور ملک کے مفادات کا مضبوط انداز میں دفاع کرتا ہے۔‘‘
شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہت خوشگوار نہیں ہیں۔ '' لیکن اس کی وجہ پاکستان یا عمران خان نہیں بلکہ خود امریکی پالیسی ہے، جس کی ترجیحات میں پاکستان نہیں بلکہ بھارت ہے۔ امریکہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی ایک ملک سے دوستی کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے سے دشمنی ہے۔‘‘
ماضی کی غلطیوں پر معذرت خواہ ہوں : پرویز مشرف
امریکی دباؤ
شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے دباؤ میں ہمیں قطعاً نہیں آنا چاہیے اور جس طرح عمران خان ملکی خودمختاری کا دفاع کررہے ہیں، ہمیں اس طرح ہی دفاع کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ''امریکہ نے ستر کی دہائی میں ہم پر چین کے حوالے سے دباؤ ڈالا لیکن بعد میں ہم نے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات بہتر کروائے۔ نوے کی دہائی میں بھی ہم پر دباؤ ڈالا۔ اب بھی ہم ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں ہیں۔ اس سے زیادہ امریکہ اور کیا کر سکتا ہے۔ وہ ہم پرحملہ تو نہیں کر سکتا ہے۔‘‘