1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پروٹین بھی جان لیوا ہو سکتا ہے

بریگیٹے ابسٹر راتھ/ کشور مصطفیٰ27 ستمبر 2013

انفکیشن یا عفونت کی وجہ محض وائرس یا بیکٹیریاز نہیں ہوتے۔کبھی کبھی پروٹین بھی انسانوں کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔، پروٹین کے بڑے مولیکیولز کی اپنی کوئی جینیاتی شناخت بھی نہیں ہوتی۔

https://p.dw.com/p/19pP6

ہر کسی کے اندر ایسے پروٹین پائے جاتے ہیں جو جانوروں میں BSE اور انسانوں میں CJD کا سبب بنتا ہے۔ یعنی جانوروں، خاص طور سے گائے میں پایا جانے والے خاص قسم کے پروٹین ’ میڈ گاؤ‘ یا گائیوں کے اندر ایک ہیجانی بیماری اور انسانوں میں ’ ڈی جینیریٹیو نیورولاجیکل آرڈر‘ یا ایک ایسے دماغی عارضے کا سبب بنتا ہے جس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ Prion نامی یہ عفونت زدہ پروٹین دماغی ٹیشوز میں سراخ کر دیتا ہے اور ان ٹیشوز کو اسپنج کی طرح کا بنا دیتا ہے۔ یہ پروٹین بذات خود بے ضرر ہوتے ہیں۔ تاہم یہ کسی بھی وقت تبدیل ہو کر اس دماغی بیماری کے حامل عفونت کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ عصبی خلیوں میں حھوٹے چھوٹے ٹیومر کی مانند جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ Prion نامی یہ پروٹین ایک سے دوسرے خلیے میں منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور دیگر پروٹین کو بھی اپنی طرح کا بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے اوریہ دماغ کے لیے اتنا زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے پھیلاؤ کو روکنا ناممکن ہوجاتا ہے اور آخر کار یہ مریضوں کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔

Deutschland Lebensmittel Lebensmittelskandale BSE
میڈ کاؤ گزشتہ چند سالوں کے دوران متعدد اسکینڈلز کا سبب بنی ہےتصویر: AP

یہ مرض زا پروٹین ہر کسی میں مخفی ہوتا ہے

طبی سائنسدانوں نے Prion نامی اس پروٹین کا پتہ سب سے پہلے 1980ء کے عشرے میں لگایا تھا۔ اُس وقت یہ ’میڈ کاؤ‘ میں پایا گیا تھا۔ تب امریکا سے تعلق رکھنے والے سٹینلی پروسینر نے اپنی تحقیق کے بعد یہ انکشاف کیا تھا کہ یہ پروٹین بیماری کا سبب بنتا ہے۔ سٹینلی کو اس اہم تحقیق کے سبب طب کے نوبل پرائز سے نوازا گیا تھا۔

بعدازاں فلوریڈا کے ’اسکرپس انسٹیٹیوٹ‘ سے تعلق رکھنے والے سوئٹزرلینڈ کے محقق چارلس وائسمن نے سٹینلی پروسینر کے مفروضے کی تصدیق کرتے ہوئے اس تحقیق کے ایک اور پہلو کو اجاگر کیا۔ چارلس کے بقول، ’’ ہم نے اس بات کا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے کہ Prion نامی پروٹین عام طور سے ہمارے دماغ میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ یہ نقصاندہ حیاتیاتی ضرر رساں مادہ متعلقہ جسم کی اپنی پیداوار ہوتا ہے‘‘۔

Prion نامی پروٹین سے پیدا ہونے والی بیماری کی علامات ڈپریشن یا پژ مردگی، ڈمنشیا یا بھول و نسیاں اور مریض کے اپنی جسم پرکنٹرول نہ ہونے کی شکل میں نمایاں ہوتی ہے۔

Flash-Galerie Deutschland Lebensmittel Lebensmittelskandale BSE
BSE بیماری کے بارے میں سوئٹزرلینڈ کے محققین نے ریسرچ کی تھیتصویر: AP

وائرس اور بیکٹیریا سے زیادہ مزاحم

Prion نامی پروٹین بہت قوی ہوتا ہے۔ یہ جراحی کے آلات پر بھی چپک جاتا ہے اور چپکا رہتا ہے۔ جب جراح اپنے آلات کو انفیکشن سے پاک کرنے کے لیے اُن پر کیمیکلز لگاتے ہیں تب بھی یہ پروٹین پوری طرح آلات کو صاف نہیں ہونے دیتا بلکہ کہیں نا کہیں موجود رہتا ہے۔ محقق چارلس وائسمن کے مطابق ماضی میں قریب 100 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں علاج کے دوران مریضوں پر اس پروٹین کا حملہ ہوا اور وہ اُن کے جسموں پر چپک کر رہ گیا۔ اُس وقت اس بات کی آ گاہی نہیں تھی کہ یہ ضرر رساں مادہ ہےکیا اور اسے کس طرح غیر فعال بنایا جائے۔

لاعلاج

Prion نامی پروٹین کے سبب پیدا ہونے والی بیماری کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اب تک کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے معلج اس بارے میں بے بس ہیں۔ یہ خوفناک بیماری مہلک ہے اور اس میں مبتلا مریضوں کی جان بچانا اب تک ناممکن ہے۔ ماہرین کے مطابق 2000 ء سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں اس بیماری کے شکار افراد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔