1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری ہو گی، جرمن وزیر

شمشیر حیدر اے ایف پی
13 اگست 2017

جرمنی کے وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں تسلسل لانے کے لیے ان کے آبائی وطنوں پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2i8os
Afghanistan Deutschland Abschiebung nach Kabul
تصویر: Getty Images/AFP/D. Roland

جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے آج اتوار تیرہ اگست کے روز ایک مقامی اخبار کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جرمنی میں مقیم ایسے تارکین وطن کو، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں، ملک بدر کرنے کے لیے ان کے آبائی وطنوں کی حکومتوں پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔

جرمنی سے مہاجرین کی ملک بدری: ’صرف رقم کا لالچ کافی نہیں‘

’مہاجرین کو متبادل سفری دستاویزات کے ذریعے ملک بدر کیا جائے‘

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے ڈے میزیئر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی لانے کے لیے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں تسلسل لانے کی ضرورت ہے۔

مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟

’ویلٹ ام زونٹاگ‘ کو دیے گئے ایک تازہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی وطن واپسی کے لیے ان کے آبائی وطنوں پر دباؤ بڑھایا جائے گا اور اس ضمن میں مشکل فیصلے بھی کرنے پڑیں گے۔

وزیر داخلہ کے مطابق ملکی سیاسی جماعتوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ایسے افراد کو جرمنی میں رہنے کا حق حاصل نہیں ہے جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں حکام نے مسترد کر دی ہیں۔ تاہم ان کی ملک بدری یقینی بنانے کے لیے واضح قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ایسے غیر ملکیوں کی ملک بدری مشکل کام ہے۔ جرمنی میں مہاجرین کی مدد کرنے والے سماجی ادارے بھی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں پر احتجاج کرتے ہیں۔

اس حوالے سے جرمن وفاقی وزیر کا کہنا تھا، ’’مجھے معلوم ہے کہ تارکین وطن کے ساتھ ذاتی تعلقات کے باعث ان کی ملک بدریوں پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے۔ تاہم پناہ کے مستحق افراد اور ایسے غیر ملکیوں کے، جنہیں تحفظ کی ضرورت نہیں ہے، مابین فرق نہ کرنا بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

جرمنی میں سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی وطن واپسی میں درپیش مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کئی ممالک اپنے شہریوں کی شناخت کرنے میں جرمنی سے تعاون نہیں کر رہے جس کے باعث ان کی وطن واپسی میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

جرمن وزیر داخلہ کے مطابق برلن حکومت ایسے ممالک پر دباؤ بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کر رہی ہے۔ ان اقدامات میں تارکین وطن کی واپسی میں تعاون نہ کرنے والے ممالک کے شہریوں کو ویزوں کے اجرا میں سختی کرنے اور ان ممالک کو فراہم کی جانے والی امدادی مالی مدد میں کمی لانا بھی شامل ہیں۔

جرمنی میں افغان تارکین وطن: مخالفت کے باوجود ملک بدری

جرمنی سے مہاجرین کی ملک بدری کا نیا قانون ہے کیا؟