1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب کب جاگے گا؟

27 جون 2020

جرمنی میں روزا لکسمبرگ اور فرانس میں ژاں پال سارتر نے بھی اجتماعی جنونیت اور جنگ کی ہولناکیوں کے خلاف اس وقت آوازیں اٹھائیں، جب ان سماجوں میں اکثریت کے سر پر جنگ، جنگی جنون اور اجتماعی پاگل پن سوار تھا۔

https://p.dw.com/p/3eQTR
DW-Urdu Blogerin Samia Shah
تصویر: Privat

جذباتی ماحول میں خردافروزی کی باتیں کرنا اور اجتماعی پاگل پن کو چیلنج کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ برطانیہ میں یہ کام کسی حد تک برٹنڈرسل اور کچھ سفید فام دانشوروں نے کیا تھا۔

ایسے جرات مندانہ اقدامات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مشکل ترین کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنی ہی قوم کی اکثریت کے خلاف اُس وقت علم بغاوت بلند کر دے، جب وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ اکثریت یا غالب قوم ملک کی مظلوم اور پسے ہوئے افراد کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے یا ان کو کسی طریقے سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے یا پورے سماج کو تباہی و بردبادی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

بلیک لائیوز میٹرز میں بھی سفید فام افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کر کے سفید فام حکمران طبقے کو بتایا ہے کہ وہ ان کے نام پر ظلم و بربریت نہیں کر سکتے۔ عراق کی جنگ کے خلاف لاکھوں لوگوں کا اجتماع مغرب کے حاکم طبقات کو یہ بتاتا رہا تھا کہ وہ ان کے نام پر جارحیت، بربریت اور ظلم کی داستانیں رقم نہیں کر سکتے۔

پاکستان کے تناظر میں پنجاب کے افراد کو ملک کی طاقتور اکائی سمجھا جاتا ہے اور پنجاب پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حاکم طبقات کے ساتھ ساز باز کرتا ہے اور جب یہ حاکم طبقات، جن میں ایک بڑی تعداد پنجاب سے ہوتی ہے، چھوٹی قومیتوں کے 'حقوق سلب‘ کرتے ہیں، تو پنجاب مزاحمت نہیں کرتا اور نہ ہی مزاحمت کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔

خدارا ’بیچ دو‘ کے نعرے کو ترک کر دیں!

 پنجاب کے اس مفاہمانہ رویے کے پیش نظر کچھ دانشوروں نے یہ بھی اڑا دی کہ پنجاب نے کبھی بھی تاریخ میں مزاحمت نہیں کی ہے۔ جو تاریخی طور پر مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر راجہ پورس نے سکندر اعظم کو اس کی زندگی کی مشکل ترین جنگوں میں سے ایک جنگ دی۔ دلا بھٹی نے اکبر جیسے طاقتور حکمراں کو چیلنج کیا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اس کے علاوہ بھگت سنگھ سمیت کئی ایسے پنجابی جان باز رہے، جنہوں نے آزادی کے لیے طاقت ور برطانوی سامراج کو للکارا۔ پنجابی ادب بھی مزاحمت سے بھرا ہوا ہے، جس سے اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ یہاں مزاحمت نہیں رہی۔

لیکن شاید پاکستان کے تناظر میں یہ بات کہی جا سکتی کہ پنجاب نے مزاحمت دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم کی۔ آزادی کے بعد پنجاب کے حاکم طبقات نے مہاجر اشرافیہ سے مل کر چھوٹی قومیتوں کو دبایا اور بنگالیوں کو ان کا جائز حق نہیں دیا گیا جب کہ بلوچوں اور پشتونوں کے خلاف لشکر کشی کی گئی۔

بنگال میں لشکر کشی کے خلاف پنجاب سے آوازیں کم بلند ہوئی۔ جنرل ضیاء کے دور میں جب سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران لوگ جمہوریت کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے، پنجاب میں کم و بیش خاموشی تھی حالانکہ پی پی پی کی بنیاد ایک طرح سے پنجاب میں رکھی گئی تھی اور وہ پارٹی کا ایک بڑا سیاسی مرکز تھا۔

سندھ: اسکول وڈیروں کے اصطبل تو کہیں مویشیوں کے باڑے

 اسی طرح بلوچستان میں فوجی آپریشن کا معاملہ ہوا یا کے پی کے اور سندھ کے دیہی و شہری علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں، بلوچستان میں گمشدہ افراد کا معاملہ ہوا یا کے پی کے اور سندھ میں ریاستی جبر، پنجاب سے آوازیں بہت کم ہی آتی ہیں۔ چھوٹی قومیتوں کا شکوہ ہے کہ اس کے برعکس پنجاب کے صحافی اور دانشور ان چھوٹی قومیتوں کے خلاف بھرپور پرو پیگنڈہ کر کے ریاست کو اندھی طاقت استعمال کرنے کا موقع دیتے ہیں، جس سے نفرتیں مزید بڑھتی ہیں اور دوریاں مزید پیدا ہوتی ہیں۔

سوہنے پنجاب کے سوہنے باسیوں کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ان کے نام پر چھوٹی قومیتوں سے زیادتیاں ہوئی ہیں اور وہ اب بھی جاری ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ بنگال سے لےکر سندھ اور کے پی کے سے لے کر بلوچستان تک فوجی آپریشنز ہوئے لیکن پنجاب میں پنجابی طالبان کی موجودگی اور جی ایچ کیو پر حملے کے باوجود اس صوبے میں کوئی موثر فوجی آپریشن نہیں ہوا۔ پنجاب کے رہائشی اس عنصر کو چاہے کسی بھی تناظر میں دیکھیں، چھوٹی قومیتیں اسے ایک دوسرے زاویے اور فکر سے دیکھتی ہیں۔

کرایے کی تحریکیں، ادھار کے انقلاب

ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب جاگے اور حاکم طبقات کو یہ باور کرائے کہ ان کے نام پر اپنے ہی بھائیوں سے زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو پنجاب مزاحمت کا مرکز بن کر بتائے کہ وہ واقعی میں بڑا بھائی ہے، جو ریاست کو ایک ایسی ماں کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے، جس کے لیے اس کے کمزور اور ناتواں بیٹے سب سے زیادہ محبت کے مستحق ہوتے ہیں۔

 پنجاب نے کئی مواقع پر بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے بنگالی مولانا بھاشانی کی قیادت میں ایشیا کی سب سے بڑی کسان کانفرنس منعقد کی۔ اس نے سندھی ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے کاندھوں پر بٹھایا اور اردو کی وہ خدمت کی جو یو پی اور سی پی کے مہاجر دانشور بھی نہیں کر سکے۔ اس صوبے نے عاصمہ جہانگیر کی شکل میں ایک ایسی نڈر شخصیت دی، جس نے مظلوم قوموں کو طاقتو ر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا سکھایا۔ اس کے دانشوروں کی ایک محدود تعداد نے ظلم وجبر کے خلاف اذیتیں برداشت کیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔

لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مزاحمت کو عوامی سطح پر اٹھایا جائے۔ پورے پنجاب سے یہ آواز اٹھے کہ آئین و قانون کے خلاف کسی اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چھوٹی قومیتوں سے پیار و محبت کے ساتھ ایک سماجی معاہدے کے تحت معاملات حل کئے جائیں گے۔ ملک کئی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔

 ایک طرف بھارت کی فوجیں ہیں اور دوسری طرف افغانستان کی طرف سے پاکستان کو جنگجوؤں اور دیگر دشمن عناصر کا سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے جن بھائیوں نے جذبات میں آکر مفاہمت کا راستہ چھوڑا ہے، ہم انہیں منائیں تاکہ کوئی بیرونی دشمن ان کو استعمال نہ کر سکے اور اس سلسلے میں پنجاب سب سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ولی خان کا کہنا تھا کہ جس دن پنجاب جاگ گیا پاکستان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ آج بھی سب سے بڑا سوال یہ ہی ہے کہ پنجاب کب جاگے گا؟