پینٹاگون، سی آئی اے کے ہاتھوں ایذا رسانی: طبی کارکن بھی ملوث، رپورٹ
4 نومبر 2013واشنگٹن سے خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ امریکی اداروں نے مشتبہ دہشت گردوں کو رکھنے کے لیے جو جیلیں قائم کر رکھی ہیں، وہاں فرائض انجام دینے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کا کام بظاہر قیدیوں کی صحت پر نظر رکھنا تھا، لیکن ان قیدیوں کے خلاف امریکی اہلکاروں کی زیادتیوں میں یہ ڈاکٹر اور نرسیں بھی ملوث رہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ دفاع اور سی آئی اے کا ان طبی کارکنوں سے مطالبہ تھا کہ وہ ان قیدیوں سے اہم معلومات کے حصول میں حکام کی مدد کریں۔ اس طرح ان ڈاکٹروں اور نرسوں نے امریکی اہلکاروں کی مدد کرتے ہوئے زیر حراست مشتبہ افراد کو شدید نقصان پہنچانے میں حکام کی مدد کی۔
یہ بات دو سال تک جاری رہنے والے ایک ایسے مطالعے کے بعد تیار کردہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے، جو امریکی انسٹیٹیوٹ آف میڈیسن اور جارج سوروش کی فنڈنگ سے چلنے والی اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کی طرف سے مکمل کرایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اس عمل کے دوران پیشہ ور طبی کارکنوں نے ایسے طریقے ڈھونڈنے اور ان پر عملدرآمد میں حصہ لیا، جن کے تحت قیدیوں پر تشدد کرنے کے علاوہ، انہیں ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز برتاؤ کا سامنا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ امریکی اہلکاروں کی جیلوں کے طبی عملے کے ساتھ مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف اس ملی بھگت کی مثالیں افغانستان اور گوانتانامو کی جیلوں کے علاوہ امریکی ایجنسی سی آئی اے کے خفیہ حراستی مراکز میں بھی دیکھنے میں آئیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ عمل امریکا پر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس رپورٹ کے شریک مصنف اور کولمبیا یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر آف میڈیسن جیرالڈ تھامسن کہتے ہیں، ’’یہ بات واضح ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر امریکی فوج نے ڈاکٹروں اور نرسوں سے معمول سے مختلف حلف لے کر انہیں فوج کا ایجنٹ بنا دیا۔ اس طرح ان کارکنوں کو فرائض کی ایسی انجام دہی کے لیے کہا گیا جو طبی اخلاقیات اور اصولوں کے منافی تھی۔‘‘ اس رپورٹ کی تیاری میں دو درجن کے قریب ماہرین نے حصہ لیا۔
ان ماہرین میں فوجی اہلکار، سماجی اخلاقیات، طبی شعبے، صحت عامہ اور قانونی امور کے ماہرین شامل تھے۔ ان ماہرین نے اب امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشتبہ دہشت گردوں کے لیے قائم امریکی جیلوں میں طبی طریقہ کار کی مکمل چھان بین کرائے۔ مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف امریکی اہلکاروں کی زیادتیوں اور ان پر تشدد میں طبی عملے کے کردار کے بارے میں اس رپورٹ کے ایک شریک مصنف لیونارڈ رُوبن سٹائن بھی ہیں۔
ان کا تعلق امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی سے ہے۔ رُوبن سٹائن کے مطابق ایسی کارروائیوں میں گوانتانامو کی امریکی جیل کے بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کو زبردستی کھانا کھلانا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ امریکی ایجنٹوں نے طبی کارکنوں کی ملی بھگت سے بہت سی دوسری جیلوں میں بھی قیدیوں کے خلاف تفتیش کے ایسے طریقے بھی اپنائے جن میں سب سے مشہور واٹر بورڈنگ ہے۔ واٹر بورڈنگ کے ذریعے کسی بھی مشتبہ فرد کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ پانی میں ڈوب رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مصنفین نے پینٹاگون اور سی آئی اے سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے کام کے لیے ایسے معیاری طریقے اپنائیں جن پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان کے معاون طبی کارکن اپنے پیشے کے اخلاقی اصولوں پر بھی کاربند ہو سکیں۔ اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون اور سی آئی اے دونوں نے ہی اس رپورٹ میں پیش کردہ حقائق کی نفی کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے۔