پی ٹی آئی کی مخصوص پارلیمانی نشستیں پھر خطرے میں؟
24 اکتوبر 2024پاکستان کی سیاسی صورتحال میں جہاں غیر یقینی کی فضا غالب ہے، وہیں حکمران اتحاد کو پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک قانونی معمہ درپیش ہے۔ 12 جولائی کو سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ریزرو سیٹس کے کیس میں پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا تھا، لیکن چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے قریب اور 26ویں آئینی ترمیم کے متعارف ہونے کے ساتھ، یہ فیصلہ اب ایک مرتبہ پھر قانونی اور آئینی بحث کے مرکز میں آ گیا ہے۔
تنازع کا مرکزی نقطہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظرثانی کی زیر التوا درخواست ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے حالیہ ریمارکس میں زور دیا کہ اس درخواست کی سماعت اسی فل بینچ کو کرنی چاہیے، جس نے پہلے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
ان کے ریمارکس میں مزید کہا گیا کہ جولائی کا فیصلہ اس وقت تک قابل عمل نہیں جب تک نظرثانی درخواست پر سماعت نہ ہو، جس کے زریعے اس فیصلے کے نفاذ کو چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس عیسیٰ نے اکثریتی فیصلے کو آئینی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے آٹھ ججوں پر تنقید کی جو اس فیصلے کے حق میں تھے اور الزام لگایا کہ انہوں نے پی ٹی آئی اور ای سی پی کی درخواستیں صرف خود تک محدود رکھنے کے لیے ''ورچوئل عدالت‘‘قائم کی۔
چھبیسویں آئینی ترمیم اور قانونی پیچیدگیاں
اس صورتحال میں جہاں ایک طرف ان مخصوص نشستوں کے معاملے پر قانونی تنازع جاری ہے، وہیں سیاسی سطح پر بھی پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹنے میں واضح طور پر دلچسپی رکھتی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ای سی پی کی نظرثانی درخواست کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تاہم 26ویں آئینی ترمیم، جس میں اس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی آئینی بینچوں کو متعارف کرایا گیا ہے، نے اس معاملے میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔
سپریم کورٹ کے رولز کے مطابق نظرثانی درخواست کی سماعت وہی بینچ کرے گا، جس نے پہلے فیصلہ دے رکھا ہو۔ اب جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی جگہ کون لے گا۔
قواعد کے مطابق، اگر کوئی جج ریٹائر ہو جاتا ہے تو سپریم کورٹ کی نامزدگی کمیٹی کے ذریعے کسی دوسرے جج کو نامزد کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ نئے آئینی بینچز، جو 26ویں ترمیم کے بعد بنائے گئے ہیں، اس کیس کو کس طرح نمٹائیں گے؟ کیونکہ نئی ترمیم کہتی ہے کہ اب تمام آئینی معاملات ان خصوصی بینچز کے سامنے سنے جائیں گے، نہ کہ عام فل کورٹ کے۔
’اکثریتی فیصلہ حتمی‘
اس بارے میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں جسٹس عیسیٰ کے ریمارکس کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا، ''اکثریتی فیصلہ حتمی ہے۔‘‘ ان کے بقول کوئی ایک جج اس کو مسترد کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ انہوں نے مزید کہا، ''اکثریتی ججوں کی وضاحت کے مطابق پی ٹی آئی اور ای سی پی میں سے کوئی بھی ان کے سامنے وضا حتی درخواست لے کر جا سکتے تھے۔‘‘
حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ قانونی حلقوں میں اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ جسٹس عیسیٰ اور جسٹس مندوخیل کے خلاف درخواست دائر کی جائے، جو اس نوٹ پر دستخط کرنے والے تھے۔ '' سپریم کورٹ کے ججز کا اکثریتی فیصلہ حتمی ہوتا ہے، اقلیت صرف اختلاف کر سکتی ہے، وجوہات دے سکتی ہے، لیکن اکثریت کے فیصلے کو پامال نہیں کر سکتی۔‘‘
نظر ثانی کی درخواست کون سنے گا؟
ایک ایسی صورتحال میں جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینئر وکیل حامد خان میں کم ازکم اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے نظرثانی درخواست کو وہی بنچ سنے گا، جس نے اصل کیس کی سماعت کی تھی، چند وکلا اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر احسن بھون نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئےکہا، '' اب سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کے حوالے سے فیصلے کرنے والی کمیٹی یہ طے کرے گی کہ نظرثانی درخواست کون سنے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''سپریم کورٹ کے قواعد آئین کو نہیں بدل سکتے لیکن آئین قواعد کو بدل سکتا ہے۔ لہٰذا 26ویں ترمیم کے بعد معاملات بدل بھی سکتے ہیں۔‘‘
یہ موقف موجودہ بحث میں ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتا ہے کہ حالیہ آئینی ترامیم کے پیش نظر نظرثانی درخواست کو کس طرح سے سنا جانا چاہیے۔ تاہم یہ موقف اس امر کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ شائد حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین ایک نئی قانونی جنگ شروع ہونے جا رہی ہے۔
’پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں خطرے سے باہر‘
تاہم اس کشیدگی کے باوجود حامد خان کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں خطرے میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بھی نظرثانی درخواستوں کو کنٹرول کرنے والے سپریم کورٹ کے قواعد تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''نظرثانی کی سماعت وہی بینچ کرے گا، جس نے پہلے اس مقدمے پر فیصلہ دیا تھا اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد، ان کی جگہ کسی اور جج کو نامزد کیا جائے گا۔ نئے آئینی بینچ زیر التوا نظرثانی کیسوں پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔‘‘
تاہم حکومتی مخالفین جسٹس عیسیٰ کے تنقیدی ریمارکس اور عدلیہ میں آنے والی تبدیلیوں کے تناظر میں پی ٹی آئی کے لیے مستقبل میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے ممکنہ مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس صورتحال کو پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت چیلنج کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
عثمان چیمہ، اسلام آباد