1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چارسدہ میں نیم فوجی تربیتی مرکز پر خود کش حملے، 92 افراد ہلاک

13 مئی 2011

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقے شبقدر میں دو خود کش حملوں کے نتیجے میں آٹھ عام شہریوں سمیت 92 افراد جاں بحق جبکہ 140 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/11Fgc
تصویر: DW

پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ذرائع کے مطابق وہاں لائے جانے والے 127 زخمیوں میں سے 40 کی حالت تشویشناک ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوان تھے، جو جمعرات کو تربیت مکمل کرنے کے بعد اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں 16 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔ دھماکوں کے بعد علاقے میں کرفیو نافذکر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی قبائلی علاقے مہمند ایجنسی کی سرحد ایک طرف ضلع چارسدہ جبکہ دوسری جانب دارالحکومت پشاور سے ملتی ہے۔

Pakistan Charsadda Selbstmordanschlag Taliban
تصویر: DW

فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سربراہ اکبر ہوتی کا کہنا ہے کہ کل 818 جوان اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد گھروں کو جا رہے تھے کہ اس دوران ایک موٹر سائیکل سوار نے ایک گاڑی کے قریب آ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے دیگر ساتھی فوری مدد کے لیے موقع پر پہنچے تو ساتھ ہی دوسرا دھماکہ بھی ہو گیا، جو مزید درجنوں ہلاکتوں کا سبب بنا۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے سنیئر وزیر بشیر احمد بلور نے ان حملوں کے بعد کہا، ”بد قسمتی سے ہمارے بچے اس جنگ میں مارے جاتے ہیں اور ہماری قوم میں ابہام پیدا کیا جا رہا ہے کہ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ سکیورٹی کے انتظامات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی تب سے کچھ دیر پہلے حکام سے بات ہوئی تھی، اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں جوانوں کو اس تربیتی مرکز سے رخصت ہونا تھا، تو انہیں چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کر کے باہر لایا جانا چاہیے تھا۔ ’’اگر وہ ایسا کرتے تو آج اتنا بڑا سانحہ رونما نہ ہوتا۔‘‘

بشیر احمد بلور نے کہا کہ وہ میڈیا کی وساطت سے تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ عوام میں ذہنی انتشار پیدا نہ کریں۔ ’’یہ ہماری جنگ ہے۔ اس میں ہمارے ہی بچے مر رہے ہیں۔ اس میں کوئی اور نہیں مرتا۔ قوم کو اس جنگ کے لیے متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی طاقت سے ہمیں یہ جنگ لڑنا بھی ہے اور اسے جیتنا بھی ہے۔‘‘

اطلاعات کے مطابق مہمند ایجنسی میں 65 جوانوں کا جنازہ پڑھانے کے بعد ان کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں کی طرف روانہ کر دی گی ہیں۔ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا، ”شبقدر میں ایف سی کے قلعے کے مرکزی گیٹ پر سکیورٹی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آج وہ سکیورٹی نہیں تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس شخص نے، جو خود بھی اس حملے میں زخمی ہو گیا، کہا کہ یہ سانحہ صرف سکیورٹی حکام کی لاپرواہی کی وجہ سے رونما ہوا۔

Pakistan Anschlag
تصویر: AP

اس عینی شاہد کے بقول، اس نے ’’ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی اور ہم اپنے ساتھیوں کو دیکھنے کے لیے موقع پر پہنچ گئے۔ پھر چند ہی منٹ کے وقفے کے بعد ایک دوسرا دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں بہت سے ریکروٹ شہید ہو گئے۔‘‘

عام تاثر یہی ہے کہ یہ دوہرا خود کش حملہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی کوشش ہے، جس کی طالبان نے دھمکی دی تھی۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان نے اس کارروائی کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے۔

تاہم قبائلی امورکے ایک ماہر اور فاٹا کے سابق سیکرٹری رستم شاہ مہمند اس نقطہ نظر سے کسی حد تک اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا کہ اس کارروائی کی اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں، ”ضروری نہیں کہ اس واقعے کا تعلق اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے ہو۔ یہ ہو تو سکتا ہے لیکن مجھے اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔‘‘ رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ مہمند ایجنسی میں گزشتہ پانچ چھ ہفتوں سے جو آپریشن کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور وہاں جو مقامی تحریکیں چل رہی ہیں، ہو سکتا ہے کہ انہی تحریکوں کے کارکنوں نے یہ کام کیا ہو۔ ساتھ ہی رستم شاہ مہمند نے یہ بھی کہا کہ جب تک حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتی، تب تک اس طرح کے سانحے اور خونریز واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔‘‘

دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کمانڈوز کی خفیہ کارروائی میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد طالبان کی جانب سے اس ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا اور پھر جمعہ کو گیارہ روز بعد یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔ اس واقعے کے بعد خیبر پختونخوا کے ان تمام اضلاع کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے، جن کی سرحدیں پاکستانی قبائلی علاقوں سے ملتی ہیں۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں