چلی زلزلے کے بعد سونامی کا خطرہ
28 فروری 2010بحرالکاہل کے اطراف کے ممالک کی جانب ڈیڑھ میٹر تک اونچی لہروں نے سفر شروع کردیا ہے۔ ساحلی علاقے کے مکینوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ مزید اونچی لہریں بھی آسکتی ہیں۔
ادھر چلی میں گزشتہ روز کے زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کرگئی ہے۔ چلی میں ہنگامی امداد کے قومی ادارے کے مطابق پندرہ لاکھ افراد زلزلے سے متاثر ہوئے جبکہ پانچ لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا۔ زلزلے کے جھٹکے پڑوسی ممالک ارجنٹائن اور برازیل میں بھی محسوس کئے گئے ہیں۔
دریں اثناء ٹوکیو حکومت نے شہریوں کو ’بڑے سونامی‘ سے متنبہ کیا ہے کہ سمندری لہروں کی اونچائی ممکنہ طور پر تین میٹر تک ہوسکتی ہے۔ جاپان کے مشرقی علاقوں میں علی الصبح ہی سائرن بجادئے گئے تھے جبکہ ٹیلی وژن چینلز پر مسلسل انتباہی پیغامات نشر کئے جارہے ہیں۔ بندرگاہوں کے دروازے بند کردئے گئے ہیں جبکہ فضائیہ کے جیٹ طیاروں اور کوسٹ گارڈز کی کشتیوں کی مدد سے سمندر میں موجود کشتیوں کو نکالنے اور ممکنہ نقصان کے مشاہدے کا کام لیا جارہا ہے۔
جاپانی وزیر اعظم یوکیو ہاتویاما نے خصوصی عوامی خطاب میں لوگوں پر حفاظتی اقدامات کرنے کے لئے زور دیا ہے۔ ملکی ماہرین موسمیات کے مطابق سونامی لہروں کی اونچائی میں مسلسل کمی اور زیادتی واقع ہورہی ہے تاہم صورتحال ایسی نہیں کہ ’بڑے سونامی کا انتباہ‘ واپس لیا جائے۔ جاپان میں اس کی تاریخ کا شدید ترین سونامی 1896 میں آیا تھا جس نے بائیس ہزار افراد کی جان لے لی تھی۔ 1933 میں ایک سونامی سے تین ہزار سے زائد ہلاکتیں واقع ہوئی تھیں جبکہ 1960 میں چلی میں آئے زلزلے سے پیدا شدہ سونامی سے خطے میں 140 ہلاکتیں واقع ہوئی تھیں۔
دریں اثناء روس کے مشرقی ساحلی علاقے ’کامچٹکا‘ میں سونامی کے خطرے کا انتباہ واپس لے لیا گیا ہے۔ ادھر نیوزی لینڈ کے Chatham جزائر پر بھی سونامی لہروں کی آمد کا سلسلسہ شروع ہوگیا ہے۔ نیوزی لینڈ، فلپائن، امریکی ریاست ہوائی اور روس کے مشرقی ساحلی علاقے سے متعدد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : گوہر نذیر گیلانی