’چند روز بعد کسی کو ان کا نام تک یاد نہیں رہے گا‘
30 جون 2020یکم جولائی اس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ تھی۔ وہ گھر سے نکلتے وقت شاید اس سوچ میں مبتلا ہو کہ دو دن کے بعد وہ اپنے بال بچوں کا پیٹ کیسے پالے گا؟ اٹھارہ ہزار مہینے کی تنخواہ میں ایک معذور بیٹے کی دوا کے ساتھ ساتھ بیٹی کے جہیز کا سامان جمع کرنا ہی ناممکن سا نظر آتا تھا لیکن اب تو اٹھارہ ہزار کا آسرا بھی ختم ہونے لگا تھا۔
اس کے سر پر چھت بھی اپنی نہ تھی۔ وہ اسی فکر میں ہو گا کہ دو دن کے بعد بیوی بچوں کی روٹی کا انتظام کہاں سے کرے گا؟ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی ملازمت ہی نہیں، زندگی بھی ختم ہونے جا رہی تھی۔ کیونکہ اسی روز افتخار وحید نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔ اس کو سر میں گولی لگنے کے بعد ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں دم توڑ دیا۔
اس کے ساتھ ایک اور محافظ خدا یار کو سر میں چھ گولیاں لگیں اور ایک پولیس اہلکار محمد شاہد بھی اپنی جان گنوا بیٹھے۔ انہوں نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، پورا ملک ان ہیروز کو سلام پیش کر رہا ہے کہ انہوں نے صرف آٹھ منٹ کے اندر چاروں حملہ آوروں کو ڈھیر کر دیا۔ لیکن ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس سے پہلے بھی وہ سینکڑوں محافظ جو دہشت گردانہ حملوں میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں، ان کے اہل خانہ آج کس حال میں ہیں؟
یہ قصہ ہے سوشل میڈیا ٹرولنگ کا
جاں بحق ہونے والے اہلکاروں کے لیے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کو بہادری کے تمغوں سے بھی نوازا جائے گا اور ان کے اہل خانہ کی کچھ نہ کچھ مالی امداد بھی کر دی جائے گی۔ نجی سکیورٹی کمپنی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مرنے والوں کے خاندان کی مالی امداد کی جائے گی۔ ایک معروف ڈیزائنر نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اعلان کیا ہے کہ وہ بھی شہید ہونے والے گارڈز کی مالی امداد کریں گی۔ ایک فلاحی کمپنی نے بھی دو لاکھ معاوضے کا عندیہ دیا ہے۔ جو سکیورٹی گارڈ غازی بنے ہیں، ان کو بھی تمغوں سے نوازا جائے گا۔ لیکن یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو غریب کو ایک آٹے کی بوری دیتے وقت بھی تصویر بنوانا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ کچھ دن کے بعد کسی کو ان کا نام تک بھی یاد نہ ہوں گے۔ آخر یہ امداد کے اعلانات بھیک کی صورت میں کیوں ہو رہے ہیں؟ کیا حکومت ان غریب اہلکاروں کو ان کی زندگی میں ہی وہ بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی، جن ضرورتوں کے بغیر زندگی بسر کرنا اجیرن ہو جاتا ہے۔ آخر ان اہلکاروں کی موت کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟
دنیا میں نیو لبرل آرڈر کا بحران
پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کی جنگ سے نبرد آزما ہے۔ حالیہ چند برسوں میں اس میں کافی کچھ کمی آئی ہے۔ لیکن ان برسوں میں سینکڑوں دہشت گردی کے واقعات میں درجنوں پولیس اہلکار اور محافظ ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ کیوں کہ دہشت گردانہ حملے کے وقت، جو شخص سب سے پہلے خود کش بمبار یا حملہ آور کو جان کی پروا نہ کرتے ہوئے گلے لگاتا ہے، وہ داخلی دروازے پر مامور محافظ یا کوئی پولیس اہلکار ہوتا ہے۔ چند دن اس کی بہادری کا چرچا رہتا ہے پھر سب ختم۔ ایک نیا واقعہ ہوتا ہے اور چند اور اہلکار اپنا خون دے کر ہمیں اپنی بے لوث حب الوطنی کا یقین دلا کر اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان میں مئی کے مہینے میں دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے سکیورٹی اہکاروں کی تعداد آٹھ بتائی جاتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے اہل خانہ کن حالات میں ہیں؟ آپ کو یاد ہو گا لاہور کے داتا دربار میں دہشت گردانہ حملے کے وقت بہادر سکیورٹی گارڈ نے آگے بڑھ کر دہشت گرد کو سینے سے لگا لیا تھا تاکہ وہ اندر داخل نہ ہو سکے۔ کیا اس کے اہل خانہ آج آرام و آسائش کی زندگی گزار رہے ہوں گے؟ ایسے ہی نہ جانے کتنی ماوں کے لال ہوں گے جو تاریک راہوں میں مارے گئے اور جن کو زمانہ کب کا بھول چکا۔
پی ٹی آئی ہمارا رومانس تھا، ختم ہوا
دفاتر میں حفاظتی انتظامات کی ذمے داری نجی کمپنیوں کے پرائیویٹ گارڈز کے سپرد ہے۔ پاکستان میں انیس سو اسی کے عشرے میں حفاظتی کمپنیوں کا کاروبار باقاعدہ طور پر متعارف کروایا گیا۔ ان کمپنیوں کی رجسٹریشن آرڈیننس کے تحت کی گئی۔ ہمارے ملک میں سکیورٹی کمپنیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن ان میں سے آدھی بھی ایسی نہیں جو اصول و قواعد کی پروا کرتی ہوں۔ بے روزگاری کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان بھی نجی محافظ کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والے سکیورٹی پر مامور محافظوں کو کیا معاوضہ دیا جاتا ہے؟ نجی سکیورٹی کمپنی کے محافظوں کا کتنا استحصال کیا جاتا ہے؟ پاکستان میں حکومت کی جانب سے مزدور کی بنیادی تنخواہ سولہ ہزار ماہانہ مقرر کی گئی ہے اور یہ بھی ہر سال ایک ہزار اضافے کے بعد یہاں تک پہنچی ہے۔ لیکن بہت کم نجی سکیورٹی کمپنیاں اس اصول پر عمل کرتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ کمپنیاں محافظوں کی آٹھ سے بارہ ہزار تنخواہ مقرر کرتی ہیں اور اسی تنخواہ میں آٹھ گھنٹے کی بجائے سولہ سولہ گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ حالانکہ ملکی قانون ہے کہ آپ آٹھ گھنٹے سے زیادہ کسی سے کام نہیں لے سکتے۔
یہ سکیورٹی اہلکار اپنے حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں کہ وہ اسی کم اجرت پر نا گفتہ بہ حالات میں کام کریں۔ یہی نہیں ان کو حفاظت کی غرض سے جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے، وہ بھی اکثر اوقات پرانا اور ناقص ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی کئی مہینے ان کو تنخواہ نہیں دی جاتی۔ وہ پانی سے روٹی کھانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن نوکری چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ عید پر بھی چھٹی کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ محافظ کئی کئی مہینے کے بعد اپنے اہل خانہ سے ملنے دوسرے شہروں کو روانہ ہوتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ مرنے کے بعد تمغے دینے کی بجائے زندگی میں ہی پیٹ بھر روٹی فراہم کر دے۔ نجی محافظ کی نوکری موت و زیست کا کھیل ہوتا ہے، لہذا اس کی تنخواہ، مزدور کی اجرت سے کم از کم دوگنا ہونا چاہئے۔ حکومت نجی محافظ کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنائے کہ نجی محافظوں کی ڈیوٹی کو آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں تقسیم کیا جائے اور ایک شفٹ کی تنخواہ حکومت کی تعین کردہ تنخواہ کے حساب سے دی جائے۔
محافظوں کو مہینے میں کم سے کم چار چھٹیوں کی اجازت دی جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر گارڈ کی انشورنس ہونا چاہئے۔ اس انشورنس کا پیسہ ورثاء کو ملنا چاہیے۔ تنخواہ کے ساتھ ساتھ میڈیکل اور رہائش کا الاونس بھی دیا جائے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ نجی کمپنیوں کے مالکان ریٹائرڈ فوجی افسران ہوتے ہیں، جو اپنے اثر و رسوخ سے قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور یہیں سے ایک سکیورٹی گارڈ کے استحصال کا آغاز ہوتا ہے۔