1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چين اپنی کرنسی کی قيمت گھٹائے، يورپ کا مطالبہ

5 اکتوبر 2010

برسلز ميں يورپی ايشيائی سربراہ کانفرنس جاری ہے، جس ميں يورپی ممالک نے چين سے يہ مطالبہ بھی کيا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کو سستے داموں فروخت کرنے کے لئے اپنی کرنسی کی قيمت کو جان بوجھ کر کم رکھنے کا سلسلہ بند کردے۔

https://p.dw.com/p/PVvQ
برسلز ميں يورپی ايشيائی سربراہ کانفرنستصویر: AP

برسلز ميں يورپی ممالک کے نمائندوں نے چين پر اپنے اس دباؤ ميں اضافہ کرديا ہے کہ وہ اپنی کرنسی يوآن کی قيمت کو بڑھا دے۔ ايشيا کے اقتصادی طور پر طاقتور ممالک اور يورپ کے درميان کرنسی کے تبادلے کی شرحوں کے بارے ميں ايک عالمی تنازعہ پيدا ہونے کا انديشہ ہے۔

Asem Gipfel Brüssel 2010
کانفرنس ميں شريک فرانسيسی صدر، جرمن چانسلر اور روماينہ کے صدر،پہلی صف میںتصویر: AP

چينی وزيراعظم وين جياباؤ نے برسلزميں 16 رکنی یورو زون کے رہنماؤں کے ساتھ چين اور دوسرے ملکوں پر ان شدت اختيار کرتے ہوئے الزامات کے بارے ميں تبادلہء خيال کيا ہے کہ وہ اپنی تجارت ميں اضافے کے لئے جان بوجھ کر اپنی کرنسی کی قيمت کو کم رکھ رہے ہيں۔

يورو زون کے وزرائے ماليات کے رہنما ژاں کلود يُنکر، يورپی مرکزی بينک کے سربراہ ژاں کلود تريشے اور اقتصادی امور کے یورپی کمشنر اَولی ريہن نے چينی وزير اعظم وين جيا باؤ کو بتايا کہ کہ اب چينی کرنسی کی شرح کے قدرتی طور پر متعين ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔

يُنکر نے 46 يورپی اور ايشيائی ممالک کی سال ميں دومرتبہ ہونے والی اس سربراہ کانفرنس کے دوران چينی وزير اعظم سے کہا کہ چينی کرنسی کی شرح تبادلہ مارکیٹ ميں اُس کی حقيقی قيمت سے کہیں کم ہے۔

Asem Gipfel Brüssel 2010
سربراہ کانفرنس کے شرکاتصویر: AP

يُنکر نے يہ بھی کہا کہ چينی کرنسی کی وسيع سطح پر قيمت کے تعين سے خود چین اور عالمی معيشت کو بھی فائدہ ہوگا۔ تاہم چين کا کہنا ہے کہ يوآن کی قیمت ميں زیادہ اضافے سے چین ميں سماجی بے چينی کا ناقابل اندازہ خطرہ پيدا ہوسکتا ہے۔

اُدھر برازيل کے وزير ماليات مانٹيگا نے کہا کہ دنيا ابھی سے کرنسی کی ايک عالمی جنگ کا سامنا کر رہی ہے۔ حال ہی ميں کولمبيا سے لے کر سنگاپور تک بہت سے ملکوں نے اعتراف کيا ہے کہ وہ اپنی برآمدات ميں اضافے کے لئے اپنی اپنی کرنسی کی قيمتوں کو کم رکھنے کے طريقے اپنائے ہوئے ہیں۔

فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے کہا کہ ہم کسی مالياتی نظام کے بغير ہی 21 ويں صدی ميں رہ رہے ہيں اور دنيا ميں کوئی جگہ ايسی نہيں، جہاں جملہ مالیاتی مسائل یکدم حل کئے جا سکيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک