چھاتی کے سرطان کی تشخيص ميں مصنوعی ذہانت معاون
5 اگست 2023سويڈن ميں کيے جانے والے ايک مطالعے ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ مصنوعی ذہانت چھاتی کے سرطان کی تشخيص ميں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ريڈيولوجسٹ تشخيص کے ليے معائنوں کا جو روايتی طريقہ کار اختيار کرتے ہيں، مصنوعی ذہانت ان کا يہ کام آسان بنا سکتی ہے۔ اس مطالعے کے ابتدائی، غير حتمی نتائج خوش آئند ضرور ہيں تاہم ماہرين کا کہنا ہے کہ اس ٹيکنالوجی کے حقيقی معنوں ميں کارآمد ہونے کے ليے ابھی مزيد تحقيق اور وقت درکار ہے۔
ہارمونل مانع حمل ادویات سے چھاتی کے سرطان کا خطرہ زیادہ، تحقیق
پاکستان: چھاتی کے سرطان کے خلاف پہلی طبی تحقیق میں اہم پیشرفت
برا اور چھاتی کا سرطان، کچھ من گھڑت دعوے
عورتوں ميں چھاتی کے سرطان کی تشخيص کے ليے ريڈيولوجسٹس کی کئی ممالک ميں کمی پائی جاتی ہے۔ ايسے ميں اس مطالعے کے ابتدائی نتائج سے يہ اميد پيدا ہو گئی ہے کہ اے آئی کی مدد سے ريڈيولوجسٹس کا کام آدھا رہ جائے گا۔ ريڈيولوجسٹس کو چھاتی کے اسکينز کا تفصيلی معائنہ کرنا پڑتا ہے، جو عموماً کافی وقت طلب کام ہوتا ہے۔
يہ پيش رفت طب کے ميدان اور چھاتی کے سرطان کے خلاف لڑائی ميں ايک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2020 ميں عالمی سطح پر 2.3 ملين خواتين ميں چھاتی کے کينسر کی تشخيص ہوئی۔ اس مرض ميں مبتلا ہو کر ہلاک ہونے والی خواتين کی تعداد 685,000 رہی۔ جسم کے اس حصے ميں سرطان کی تشخيص کے ليے اسکينز کا باقاعدگی سے معائنہ درکار ہوتا ہے۔ يورپ ميں پچاس سے انسٹھ سال کی درميانی عمر والی خواتين کو ہر دو سال ميں کم از کم ايک مرتبہ ميموگرام کی تجويز دی جاتی ہے جس کا دو ريڈيولوجسٹ معائنہ کرتے ہيں۔
سويڈن ميں اس مطالعے ميں اسی ہزار خواتين کے اسکينز کا معائنہ کيا گيا۔ يہ معائنے ملک کے جنوب مغرب ميں چار مختلف مقامات پر اپريل 2021ء سے پچھلے سال جولائی تک کيے گئے۔ اسکينز کو دو ريڈيولوجسٹس اور مصنوعی ذہانت سے ليس کمپيوٹرز کے حوالے کيا گيا۔ اے آئی ايلگوردم نے اسکينز کا معائنہ کر کے کينسر کے امکانات کا جائزہ ليا۔ بعد ازاں يہ نتائج ايک ريڈيولوجسٹ نے ديکھے۔ مجموعی طور پر اے آئی بيس فيصد زيادہ سرطان کے کيسز کے شناخت ميں کامياب رہی۔ ساتھ ہی ريڈيولوجسٹس کے کام ميں چواليس فيصد تک کمی بھی نوٹ کی گئی۔
سويڈن کی لُنڈ يونيورسٹی سے وابستہ اس مطالعے کی مرکزی محققہ اور مصنفہ کرسٹينا لانگ نے بتايا، ''اس وقت مصنوعی ذہانت کا سب سے بڑا فائدہ يہ ہے کہ اس کی بدولت ريڈيولوجسٹس کو کافی کافی دير تک معائنہ نہيں کرنا پڑا اور يوں ان پر اس کا بوجھ نہ تھا۔‘‘
محققين کے مطابق ابھی مزيد دو سال لگيں گے اور پھر ہی اس بات کا حتمی تعين ممکن ہو سکے گا کہ آيا مصنوعی ذہانت چھاتی کے سرطان کی بروقت شناخت ميں کتنی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
ع س / ع ت (اے ایف پی)