چین میں مردم شماری اور داخلی مہاجرین کے مسائل
6 نومبر 2010ایسے ہی ایک چینی شہری کا نام تان جیان گو ہے، جو اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ گزشتہ دس سال سے ملکی دارالحکومت بیجنگ کے نواح میں ایک تنگ سی گلی کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے۔ تان اور اس کی بیوہ اس لئے دن بھر محنت کرتے ہیں کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
تان تالے بنانے کا کام کرتا ہے اور اس کی شریک حیات ایک سڑک پر لگائے گئے ایک چھوٹے سے سٹال پر کھانے پینے کی اشیاء بیچتی ہے۔ لیکن یہ دونوں چینی شہری بیجنگ اور اس کے مضافاتی علاقوں پر مشتمل انتظامی علاقے کے قانونی رہائشی نہیں ہیں۔
انہیں یہ خوف بھی ہے کہ اول تو وہ اندرون ملک غیر قانونی مہاجرت کے مرتکب ہوئے اور پھر انہوں نے چینی ریاست کی ایک بچے کی سخت گیر پالیسی کی خلاف ورزی بھی کی۔ اس لئے کہ ان کے دو بچے ہیں۔
آبائی طور پر بیجنگ کے ارد گرد کے علاقے پر مشتمل چینی صوبے بیبائی کے رہنے والے 35 سالہ تان جیان گو کو خدشہ ہے کہ پیر یکم نومبر سے چین میں جو مردم شماری شروع ہوئی ہے، اس کے دوران سرکاری اہلکار جب اس کے گھر آئیں گے تو اسے اپنے خلاف قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اپنی جائے روزگار پر تان نے خبر ایجنسی AFP کو بتایا کہ ملکی آبادی سے متعلق تفصیلات جمع کرنے والے ریاستی اہلکار جب اس کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو اس کے لئے ان سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس چینی شہری نے کہا کہ اسے ابھی تک یہ علم نہیں کہ مکنہ سزا سے بچنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہیے۔
تان کا شمار چین کے ان کئی سو ملین شہریوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے حکام کی باقاعدہ اجازت کے بغیر اپنے آبائی علاقوں سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کی۔ یہی وہ چینی کارکن ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ لیکن وہ چین کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسے چینی شہریوں کی اکثریت کو تشویش یہ ہے کہ ملک میں ہر دس سال بعد ہونے والی مردم شماری کا اسی مہینے شروع ہونے والا عمل ان کے خلاف سرکاری افسران کے ایک آپریشن کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
لیکن ایسے چینی باشندے اس لیے بڑے شہروں اور صنعتی مراکز کا رخ کرتے ہیں کہ جب ان کا ملک ترقی کر رہا ہے تو اس خوشحالی میں ان کا حصہ بھی ہونا چاہیے۔ اس زیادہ آمدنی کے لئے ایسے کارکنوں کو دن رات محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن وہ پھر بھی اس لئے مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر ہے اور انہیں امید ہوتی ہے کہ ان کا آنے والا کل آج سے بہتر ہو گا۔
گزشتہ برس چین کی مجموعی آبادی کا اندازہ ایک ارب 33 کروڑ 47 لاکھ لگایا گیا تھا۔ یہ آبادی 1953ء میں کی جانے والی پہلی مردم شماری کے مقابلے میں 594 ملیں یا قریب 60 کروڑ زیادہ بنتی ہے۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : افسر اعوان