چین میں مقید پاکستانیوں کے لواحقین کا احتجاج
26 جنوری 2011مختلف الزامات کے تحت چین کی جیلوں میں قید افراد کے لواحقین نے بدھ کے روز دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ بھی کیا ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت سولہ خواتین سمیت تین سو پچاس افراد چینی جیلوں میں قید ہیں۔ اور مناسب سفارتی معاونت نہ ملنے کے سبب ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کے ایک تاجر عترت حسین کے بھائی وجاہت علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے بھائی گزشتہ بارہ سال سے شاہراہ قراقرم کے ذریعے چین سے تجارت کر رہے تھے لیکن انہیں چار سال قبل ایک ممنوعہ کیمیکل رکھنے کے الزام میں چینی حکام نے گرفتار کیا تھا اور بہت مشکلوں کے بعد انہیں اپنے بھائی کی گرفتاری سے متعلق معلومات حاصل ہوئیں۔ انہوں نے کہا ’’ وہاں پر پاکستانی سفارتخانہ کچھ نہیں کر رہا ، دفتر خارجہ نے بھی کوئی مدد نہیں کی سب مل کر پاکستانی ٹیکس گزاروں کا پیسہ کھا رہے ہیں اور حالت یہ ہے کہ دس لاکھ روپے خرچ کرنے کے بعد مجھے معلوم ہو سکا کہ میرے بھائی کہاں ہیں‘‘۔
مظاہرے میں شریک ابرار حیدر کا کہنا تھا کہ ایک پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ کی امریکہ سے رہائی کے لئے اتنی کوششیں کی گئیں لیکن چین میں قید سولہ پاکستانی بیٹیوں کی رہائی کی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی ۔ اس موقع پر گلگت بلتستان کونسل کے رکن امجد حسین کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان کے درمیان دسمبر دو ہزار سات میں مجرمان کے تبادلے کا ایک معاہدہ کیا گیا تھا اور گلگت بلتستان کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وہ وفاقی وزارت داخلہ کے ذریعے اپنے قیدیوں کو واپس لا سکے"۔
واضح رہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سات ہزار سے زائد پاکستانی شہری دنیا کے مختلف ممالک کی قید میں ہیں اور حکومت ان کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہی ہے ۔ لاپتہ افراد اور بیرون ملک قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ بیرون ملک اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی بگرام جیل میں ستائیس سے زائد جبکہ تھائی لینڈ میں ایک سو تین پاکستانی قیدی تھے جن میں سے آٹھ کو وطن واپس لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ہے کہ بیرون ملک قید پاکستانیوں کو وطن واپس لا کر قانونی معاونت فراہم کی جائے تا کہ انہیں رہائی نصیب ہو۔
معروف قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ کے حامل ہر شخص کی بیرون ملک تحفظ کی ضمانت صدر پاکستان کی جانب سے دی جاتی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی طرح پاکستان بھی بیرون ملک قید اپنے شہریوں کو سفارتخانوں کے ذریعے ہر طرح کی امداد مہیا کرے۔
رپورٹ: شکور رحیم اسلام آباد
ادارت: کشور مصطفیٰ