چین کے نئے سرحدی قانون سے بھارت پریشان کیوں؟
28 اکتوبر 2021چین کے نئے سرحدی قانون 'لینڈ بارڈرز لاء‘ کے سلسلے میں نئی دہلی کا سخت ردعمل کچھ اسی طرح کا ہے جیسا ردعمل بیجنگ نے بھارت کی جانب سے اگست 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے پر کیا تھا۔ حالانکہ بھارتی وزارت خارجہ نے اس وقت کہا تھا، ”بھارت کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا اور دیگر ملکوں سے بھی اسی طرح کی توقع رکھتا ہے۔"
چین کی سرحدیں 14 ملکوں سے ملتی ہیں۔ اس نے بھارت اور بھوٹان کوچھوڑ کر بقیہ تمام ملکوں سے اپنے سرحدی تنازعات حل کر لیے ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان تقریباً 3500 کلومیٹر طویل سرحد تنازعہ ہے۔ جوہری ہتھیار رکھنے والے دونوں پڑوسی اس طویل سرحد اور اس کے اطراف کے علاقوں پر اپنے اپنے دعوے کرتے ہیں۔ دونوں ممالک میں 1962ء میں جنگ بھی ہو چکی ہے۔
چین کا فیصلہ یک طرفہ، بھارت
بھارت نے بدھ کے روز بیجنگ سے کہا کہ وہ بھارت۔ چین سرحد کے متنازعہ علاقوں میں یک طرفہ تبدیلی کرنے کے لیے اپنے نئے سرحدی قانون کا استعمال کرنے سے گریز کرے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے چین کے نئے سرحدی قانون کے حوالے سے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا،”چین کا نیا سرحدی قانون ہمارے لیے باعث ِ تشویش ہے۔ اس طرح کی قانون ساز ی کے متعلق چین کے یکطرفہ فیصلے کے بارڈر مینجمنٹ کے ہمارے موجودہ طریقہ کار پر مضمرات پڑسکتے ہیں۔کیونکہ اس میں سرحدی علاقوں میں اضلاع کی تشکیل نو کی گنجائش بھی موجود ہے۔"
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ بھارت او رچین کے درمیان سرحد کا سوال اب تک حل نہیں ہوسکا ہے،''دونوں فریق اس تنازعے کا بات چیت کے ذریعے منصفانہ، مناسب اور باہمی قابل قبول حل تلاش کرنے پر متفق ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی) پر امن برقرار رکھنے کے لیے کئی عبوری باہمی معاہدوں، پروٹوکول اور انتظامات پر دستخط کررکھے ہیں۔
بھارتی ترجمان نے امید ظاہر کی کہ "چین نئے قانون کی آڑ لے کر بھارت۔ چین سرحدی علاقوں کی صورت حال میں کسی طرح کی یکطرفہ تبدیلی کی کوشش نہیں کرے گا۔"
نیا قانون چین پاکستان سرحدی معاہدہ کا جواز نہیں
بھارت نے کہا،''نئے قانون کی منظوری سے 1963ء کے نام نہاد چین پاکستان سرحدی معاہدہ کو ہماری نگاہ میں کوئی قانونی جواز حاصل نہیں ہوجاتا ہے۔ بھارت سرکار کا دیرینہ موقف ہے کہ یہ ایک غیر قانونی اور غلط معاہدہ ہے۔" بھارت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے پاک مقبوضہ علاقے میں 5180 کلومیٹر بھارتی علاقے کو غیر قانونی طور پر چین کو دے دیا تھا۔
اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیے جانے پر چین نے ”سخت تشویش" کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا،”متعلقہ فریقین کو تحمل اور احتیاط سے کام لینا چاہیے اور ایسی کسی یک طرفہ تبدیلی کرنے سے گریز کرنا چاہیے، جس سے موجودہ صورت حال میں فرق پڑے اور کشیدگی میں اضافہ ہو۔"
بھارتی وزارت خارجہ نے اس کے جواب میں کہا تھا، ”بھارت کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا اور دیگر ملکوں سے بھی اسی طرح کی توقع رکھتا ہے۔"
چین کا نیا سرحدی قانون کیا ہے؟
چین کی نیشنل پیپلز کانگریس نے 23 اکتوبر کو ”ملک کے سرحدی علاقوں کے تحفظ اور استعمال" کے حوالے سے ”لینڈبارڈرز لاء‘‘ کے نام سے ایک نئے قانون کو منظوری دی ہے۔ اسے یکم جنوری سے نا فذ کردیا جائے گا۔
اسے چین کی جدید تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا قانون قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون میں ملک کی سرحدوں کے نظم و نسق کے حوالے سے تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس قانون سے چینی فوج کے سرحدوں پر گشت کرنے یا انہیں بند کرنے کے سلسلے میں وسیع تر اختیارات مل گئے ہیں۔
یہ قانون سرحدی علاقوں میں رہنے والے شہریوں مثلاً بھارت، بھوٹان اور نیپال کے قریب کے گاؤں والوں کو ” پہلی ڈیفینس لائن'' کے طور پر اقدام کرنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ اس نئے قانون میں سرحدی علاقوں میں اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے اور کام اور زندگی کے مواقع بہتر بنانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کو دراصل اس بات سے فکر لاحق ہے کہ چین کے اس نئے قانون سے سرحد پر فوجی پوزیشن پر کافی اثر پڑ سکتا ہے۔ چین قانون کی آڑ میں سرحدی علاقوں میں اپنی دفاعی پوزیشن اور انفرا اسٹرکچر کو مزید مضبوط کر سکتا ہے۔کیونکہ نئے قانون کے تحت چینی فوج کوملک کی کسی بھی سرحد پر پیش آنے والے کسی بھی طرح کے ”حملے، غیر قانونی قبضے، دراندازی یا اشتعال'' کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی اجازت ہو گی۔