ڈائیٹنگ سے موٹا کرنے والی غذاؤں کی طرف رغبت میں اضافہ
17 دسمبر 2010فی الحال طبی ماہرین نے اس کا تجربہ چوہوں پر کیا ہے تاہم اب وہ انسانوں پر بھی یہ ریسرچ کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرینِ غذائیت کی کوشش ہے کہ وہ انسانوں کے لئے وزن کم کرنے کا کوئی سہل طریقہ تلاش کریں۔ غذائی عادات اور کھانے پر کنٹرول رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ اس کوشش میں بہت سے انسان اسٹریس کا شکار ہو جاتے ہیں جو الُٹا وزن میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ ماہرین نے اس بارے میں تحقیق کی ہے کہ آخر اسٹریس کی حالت میں غیر صحت بخش یا مُرغن کھانوں سے پرہیز کرنا کیوں مشکل ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ہم کم کیلوریز والی غذائیں استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں تو ہمارے دماغ کے فنکشن کی پروگرامنگ میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے اور بہت سے جینز میں بھی تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اسٹریس کی حالت میں ہمارے اندر مُرغن غذا کی طرف رغبت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
سب سے مایوس کن امر یہ کہ بعد میں انسانوں کو احساس ہوتا ہے کہ ڈائیٹنگ کے بعد اُن کا وزن کم ہونے کے بجائے پہلے کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔ اس بارے میں میں امریکہ کی پینسیلوینیا یونیورسٹی کی محقق اور اسسٹنٹ پروفیسر ‘ٹریسی بیل‘ اور ان کے ساتھیوں نے طبی جریدے ’Journal of Neuroscience‘ میں ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ ماہرین نے یہ تحقیق پہلے چوہوں پر کی اور اس کے نتائج سامنے آنے کے بعد اب ان کا یہ کہنا ہے کہ انسانوں میں بھی ڈائٹنگ کے ایسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تجرباتی چوہوں کو تین ہفتوں تک سخت ڈائیٹ پر رکھا گیا۔ اس کے بعد پتہ چلا کہ ان چوہوں نے 10 سے 15 فیصد وزن کم کیا ہے۔ یہ وہ شرح ہے جو انسانوں میں بھی دیکھنے میں آتی ہے یعنی تین ہفتے کھانے پینے کی سخت احتیاط کے بعد اکثرانسان بھی اپنے وزن میں 10 سے 15 فیصد کمی لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تاہم چوہوں کے خون کے معائنے سے یہ پتہ چلا کہ ڈائیٹنگ کے دوران اُن کے خون میں اسٹریس ہارمونز کی تعداد میں واضح اضافہ ہو گیا دوسرے یہ کہ ان کے رویے سے یہ صاف ظاہر تھا کہ اُن پر غیر معمولی ڈیپریشن کی کیفیت طاری ہو گئی۔ ریسرچرز کو اپنی تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ ڈائیٹ کنٹرول کی وجہ چوہوں کے دماغی جینز میں نارمل غذائیت نہ پہنچنے کے سبب بہت سے جینز میں نقص پیدا ہو گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس نقص کا تعلق Epigenetic Changes یا برتولیدی تبدیلیوں سے ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ دماغی خلیوں کو کم غذائیت پہنچنے کے سبب موروثی جینز پر کیمیائی مادے جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور دماغ کے اندر مختلف جینز کو متحرک کرنے اور انہیں ساکت کرنے کا عمل رُک جاتا ہے۔
محققین کی ریسرچ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ محض ڈائٹنگ یا وزن کم کرنے کی مہم کے دوران ہی نہیں بلکہ اس سلسلے کو ترک کرنے کے بعد بھی جب چوہوں کا وزن پہلے جتنا ہو گیا تب بھی اُن کے اندر اسٹرس ہارمون بہت زیادہ فعال نظر آئے۔ نتیجہ یہ کہ وہ اپنے اُن ساتھیوں سے کہیں زیادہ مُرغن غذا کی طرف راغب نظر آئے جو ڈائیٹنگ نہیں کر رہے تھے۔
ٹریسی بیل اور اُن کے ساتھیوں کا ماننا ہے کہ ڈائٹنگ کا ایک منفی اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اسے ترک کرنے کے بعد غذائی عادات کو دوبارہ سے صحت بخش بنیادوں پر مرتب کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور سے ایک ایسی غذائی روٹین بنانے کا عمل دشوار ہوتا ہے جو غذائی کنٹرول ختم کرنے کے بعد دماغ میں جنم لینے والے اسٹرس ہارمونز کا مقابلہ کر سکے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عابد حُسین