ڈاکٹر آفریدی کو سزا دینے کا جواز نہیں، امریکا
24 مئی 2012بدھ کے روز ایک پاکستانی عدالت نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکا اور بالخصوص سی آئی اے کی معاونت کے ’جرم‘ میں تینتیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے دو ہفتے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ شکیل آفریدی پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ایماء پر ایبٹ آباد کے اُس علاقے میں پولیو کے قطرے پلانے کی ایک جعلی مہم چلائی تھی، جہاں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا شبہ تھا۔ اس مہم کا مقصد مشتبہ کمپاؤنڈ تک رسائی اور وہاں کے رہائشی بچوں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنا تھا۔
پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور کے ایک سرکاری عہدیدار محمد ناصر کا کہنا تھا، ’’ڈاکٹر شکیل کو تینتیس برس قید کی سزا سنائی گئی ہے جب کہ انہیں تین لاکھ بیس ہزار روپے تک کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔‘‘
حکام کے مطابق ڈاکٹر آفریدی کو غداری کے قوانین کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔
ڈاکٹر آفریدی کو سزا سنائے جانے پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا کہ اس حوالے سے امریکا کے جو مطالبات پہلے تھے وہی اب بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہمارے خیالات اس بابت تبدیل نہیں ہوئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر آفریدی کو گرفتار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی یہ طے نہیں ہے کہ آفریدی پر مقدمہ ختم ہو چکا ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی ان کے پاس دیگر قانونی راستے موجود ہیں۔
امریکی سینیٹروں کارل لیون اور جان میک کین نے ڈاکٹر آفریدی کی سزا پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ آفریدی کو معافی دے کر فوری طور پر رہا کرے۔
ان دونوں ریپبلکن سینیٹروں کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا: ’’ڈاکٹر آفریدی کی قید اور ان کو ایک مجرم کے طور پر برتے جانے سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ کانگریس پاکستان کو امداد دینے پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔‘‘
(ss/aa (AFP, Reuters