ڈرون حملوں میں سینکڑوں پاکستانی سویلین ہلاک ہو چکے ہیں، تحقیق
12 اگست 2011لندن میں قائم بیورو آف انویسٹی گیٹِو جرنلزم اور پاکستان کے انگریزی روزنامہ دی ایکسپریس ٹریبیون کے تحقیقی مطالعے کے مطابق 2004ء سے اب تک 291 ڈرون حملے ہوئے ہیں۔
اس عرصے میں ان حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی کم از کم تعداد دو ہزار دو سو بانوے بتائی گئی ہے، جو بالعموم سامنے آنے والے اعدادوشمار سے چالیس فیصد زیادہ ہے۔
اس مطالعے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے یہ حملے تیز کیے اور دو سو چھتیس حملوں میں ایک ہزار آٹھ سو بیالیس افراد ہلاک ہوئے۔
بتایا گیا ہے کہ اس کے برعکس سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے عہد میں ایسے باون حملے ہوئے تھے۔ امریکی ڈرون حملوں کے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ انتہاپسندوں کے مشتبہ اہداف پر سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے اس سے کہیں زیادہ حملے کیے گئے، جن کا قبل ازیں پتہ چلتا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد گیارہ سو ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق دفاعی تجزیہ کار اور پاکستان کے قبائلی علاقے کے لیے سابق چیف سکیورٹی آفیسر محمود شاہ کا کہنا ہے: ’’ہماری پختون ثقافت میں ایک کمپاؤنڈ ہوا کرتا ہے، جس میں رہائشی علاقہ ہوتا ہے۔ وہاں لوگ اپنے خاندان بساتے ہیں۔ اس سے ملحق مہمانوں کے لیے حجرہ بھی بنایا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہاں ٹھہرنے والے ’مہمان‘ طالبان یا القاعدہ کے مشتبہ رکن ہوں اور ان پر ڈرون حملہ ہو تو اس میں عام طور پر سویلین بھی مارے جاتے ہیں۔
ڈی پی اے کے مطابق اسلام آباد حکومت سرکاری سطح پر امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کرتی ہے لیکن اس کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اہداف کی نشاندہی کے لیے سی آئی اے کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔
خیال رہے کہ یہ حملے افغانستان کی سرحدسے ملحقہ پاکستان قبائلی علاقوں میں کیے جاتے ہیں، جنہیں امریکہ خطرناک ترین خطہ قرار دیتا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج اور دیگر مقامات پر حملوں کے منصوبے انہی علاقوں میں بنائے جاتے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق