1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈریسڈن پر بمباری: ہلاکتوں کی حقیقت اور مفروضے

13 فروری 2020

دوسری عالمی جنگ کے دوران تیرہ اور چودہ فروری سن 1945 کو جرمن شہر ڈریسڈن پر شدید بمباری کی گئی تھی۔ اس بمباری کے کئی چشم دید اب بھی زندہ ہیں۔ مشہور اسکالر وکٹور کلیمپر کی تحریریں بھی اس بمباری کی تباہی کو بیان کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Xj1F
Deutschland - Bomben über Dresden
تصویر: picture-alliance/Everett Collection

یہودیت سے مشرف بہ مسیحیت ہونے والے ماہر لسانیات وکٹور کلیمپر اس بمباری کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ، '' دور سے جنگی طیاروں کی سنائی دینے والی آواز کے قریب پہنچنے پر بجلی چلی گئی اور پھر پہلا دھماکا سنائی دیا، وقفے میں پناہ گاہ کے اندر موجود افراد نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ پھر دھماکوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، سبھی لوگ کرسیوں کے نیچے سر جھکائے ہوئے ادھ موئی ہوئی آواز میں سسکیاں بھر رہے تھے، دھماکے مسلسل ہو رہے تھے اور گننا مشکل ہو گیا تھا۔‘‘

وکٹور کلیمپر ڈریسڈن پر کی گئی بمباری کے ایک چشم دید اور معتبر گواہ تھے۔ وہ نازی حکومت کی اطلاع کے مطابق کسی اذیتی مرکز منتقل کرنے کے منتظر تھے کہ بمباری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان کی سن 1933 سے 1944 تک کی لکھی ہوئی ذاتی ڈائریاں اس وقت سیکسنی اسٹیٹ یونیورسٹی کی ڈریسڈن میں واقع لائبریری میں موجود ہیں۔ یہ ڈائریاں ڈریسڈن پر کی جانے والی ریسرچ کا ایک بڑا سرمایہ خیال کی جاتی ہیں۔

Bildergalerie Ruinen des Zweiten Weltkrieges - Dresdner Frauenkirche
اتحادی جنگی طیاروں کی بمباری کے بعد ڈریسڈن شہر کی تباہیتصویر: AFP/Getty Images

اس بمباری سے وکٹور کلیمپر معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔ وہ اپنے ڈائری میں تحریر کرتے ہیں کہ جس انداز میں بمباری کی گئی، انہیں اپنے مرنے کا یقین ہو چلا تھا۔ وہ اس تناظر میں تحریر کرتے ہیں، '' کھلے میدان میں گرنے والے بم کسی آتش فشاں جیسے تھے، میں اس صورت حال پر خوف زدہ نہیں ہوا بلکہ بیزاری اور اکتاہیٹ کا شکار ہو گیا اور اپنے منطقی انجام کا انتظار کرنے لگا۔‘‘

یہ بھی ایک زیر بحث معاملہ ہے کہ اتحادی فوج کی ڈریسڈن پر کی جانے والی شدید بمباری کس حد تک درست اور جائز قرار دی جا سکتی ہے۔ اتحادی فوج کے مطابق ڈریسڈن ایک اسٹریٹیجک ٹارگٹ تھا اور جنگ بند کرنے کے لیے یہ بمباری ضروری تھی تا کہ جرمن عوام کا مورال پوری طرح گر جائے اور شہر تک پہنچنے والی روسی افواج متاثر بھی ہو سکیں۔ ڈریسڈن کا شہری حُسن اتحادی فوج کی بمباری سے بس تھوڑا سا ہی بچا۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اس بمباری کے بعد تاریخی حقائق کو تبدیل کر کے اپنی تشریح دی گئی اور مفروضے کھڑے کیے گئے۔

اب بھی کہا جاتا ہے کہ ڈریسڈن کے شہریوں پر کی جانے والی بمباری جنگی جرائم میں شمار ہونی چاہیے۔ نازی حکومت نے اس بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور کہا کہ دو لاکھ سے زائد شہری بمباری سے ہلاک ہوئے۔ بعض نازی ذرائع ہلاکتوں کی تعداد پانچ لاکھ تک بیان کرتے ہیں۔ ان کا مقصد ہولوکوسٹ  میں کی جانے والی لاکھوں ہلاکتوں کا تقابل تھا۔

Symbolbild Deutschland Wiederaufbau Nachkriegszeit Trümmerfrauen
ڈریسڈن شہر کی تباہی کے بعد تعمیر نو میں مصروف شہریتصویر: Fred Ramage/Keystone Features/Hulton Archive/Getty Images

سن 2005 میں ڈریسڈن کی شہری کونسل نے حقائق جاننے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن نے پانچ برس تک مختلف دستاویزات اور چشم دید گواہان کے بیانات جمع کیے۔ اس کمیشن نے ہلاکتوں کی تعداد اٹھارہ سے پچیس ہزار کے درمیان بتائی۔ کمیشن نے اُس اندازے کو بھی مفروضہ قرار دیا جس میں بیان گیا تھا کہ ہزاروں بے گھر افراد بھی اس بمباری میں موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہٴ آمریت کے ریسرچر تھوماس ویڈیرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بمباری کے دوران شہر کا درجہ حرارت دو ہزار ڈگری تک پہنچنے کا بھی سائنسی طور پر تجزیہ کیا گیا تو یہ ایک جھوٹ نکلا۔

جرمنی کا یہ مشرقی شہر جرمن اتحاد سے قبل سابقہ سوویت یونین کے اتحادی منقسم جرمنی کے حصے جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (مشرقی جرمنی) میں (سن 1949 سے 1990 تک)  شامل تھا۔ اس کمیونسٹ حکومت  نے سرکاری طور پر بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پینتیس ہزار کے لگ بھگ بتائی تھی۔ یہ شہر اب پھر نیو نازی افراد کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ اس بمباری کی سن 2009 میں ہونے والی برسی کے موقع پر چھ ہزار انتہا پسند ایک ریلی میں شریک ہوئے تھے۔

مارسیل فیورسٹناؤ (ع ح ⁄ ا ا )