ڈی این اے کے ذریعے آنتوں کے کینسر کی تشخیص
6 مارچ 2011اس تحقیق میں آنتوں میں ٹیومرز اور گٹھلیوں سے متعلق دو مختلف جینز پر کیے گئے تجربات میں حیرت انگیز طور پر نہایت ٹھیک ٹھیک معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ ٹیومرز بعد میں کینسر میں تبدیل ہو سکتے تھے۔
سائنسدانوں کے مطابق آنتوں میں پیدا ہونے والی تمام گٹھلیوں کا کینسر بننا ضروری نہیں، تاہم آنتوں میں کینسر کی تمام اقسام کا آغاز انہیں گٹھلیوں کے ساتھ جڑا ہے۔
یہ تحقیقی رپورٹ کیمبرج یونیورسٹی کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے مرتب کی ہے اور اسے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع کیا گیا ہے۔ تحقیق میں آنتوں میں گٹھلیوں اور کینسر کے شکار 261 مریضوں کا مطالعہ کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق انسانی ڈی این اے میں میتھائلیشن کا عمل انتہائی اہم ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہی عمل آنتوں میں موجود صحت مند خلیوں کے ذریعے ایسے خلیات کے خلاف ’سرخ بتی‘ روشن کردیتا ہے، جو آنتوں میں غیر ضروری طور پر پروٹین پیدا کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی خلیے کے ارتقاء میں بھی میتھائلیشن کا عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ میتھائلیشن کا یہی عمل اس وقت کینسر کے پھیلاؤ کی وجہ بھی بن جاتا ہے، جب یہ عمل کسی خاص صورتحال میں صحت مند جینز کو بلاک کر دے۔
اس تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر اشرف ابراہیم کے مطابق مستقبل میں ڈی این اے میں مالیکیولی تبدیلیوں کی مدد سے آنتوں کے کینسر کی تشخیص کو نہایت سادہ بنایا جا سکے گا۔
’مالیکیولی علامات، جو جینز کو یہ بتاتی ہیں کہ یہاں پروٹین پیدا کیا جائے یا نہیں، کینسر کی تشخیص میں اہم ہو سکتی ہیں۔ ہم نے آنتوں کے متعدد حصوں میں ایسی علامات کے نتیجے میں سرطان کے پھیلاؤ کا مطالعہ کیا ہے۔‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : ندیم گِل