کئی جرمنوں اور فرانسیسیوں کے لئے مسلمان ایک خطرہ
5 جنوری 2011لی موند، Le Monde نامی اخبار نے دونوں ممالک میں منعقدہ عوامی جائزوں کے بعد یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جائزے میں شامل بیالیس فیصد فرانسیسی شہریوں نے اپنے ملک میں بسنے والی مسلم برادری کو اپنے قومی شناخت کے لئے خطرہ گردانا ہے۔ اسی طرح سروے کا حصہ بننے والے چالیس فیصد جرمنوں کی رائے بھی ایسی ہی تھی۔
لی موند کے ساتھ اس عوامی جائزے میں تعاون کرنے والی کمپنی IFOP کے ایک عہدیدار
Jerome Fourquetکا کہنا ہے کہ تارکین وطن کے انضمام کی راہ میں حائل سلامتی اور روزگار سے جڑے سوالات سے بڑھ کر مذہب سے ان کا تعلق جاننے کی کوشش کی گئی۔
یہ سروے گزشتہ سال کے آخری مہینے میں کیا گیا تھا۔ سروے میں شامل 75 فیصد جرمن باشندوں کا خیال تھا کہ مسلمان ان کے معاشرے میں بہتر طور گھلے ملے ہوئے نہیں ہیں۔ یہی خیال 68 فیصد فرانسیسی شہریوں کا تھا۔
ان دو مغربی یورپی ممالک کے عوام کے خیال میں مسلمان اپنی خواہش کے مطابق اُن کے معاشرے میں مکمل طور پر ضم نہیں ہورہے۔ جرمن اور فرانسیسی شہریوں میں سے بالترتیب 15 اور 18 فیصد کی رائے میں میزبان ممالک میں لسانیت اور قبولیت سے انکار بھی مسلمانوں کے بہتر انضمام کی راہ میں رکاٹ ہے۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس میں آباد ہیں، جن کی تعداد کا تقریباً ساٹھ لاکھ بنتی ہے۔ ان میں سے بیشتر شمالی افریقی ممالک اور ترکی سے آنے والوں کی ہے۔ فرانس ہی نے حال میں مکمل چہرے کے نقاب پر پابندی کا قانون بنایا ہے۔
جرمنی نے جنگ عظیم کے بعد ملک کے اندر تعمیر نوکے لئے بہت بڑی تعداد میں مسلمان تارکین وطن کو آنے دیا تھا۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد پینتالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے، جن میں اکثریت ترک النسل ہیں۔
جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام پرچونکہ زیادہ توجہ ہے اسی لئے بعض حلقے یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ کسی ناخوشگوار دہشت گردانہ حملے کی صورت میں عوامی ردعمل زیادہ نفرت آمیز اور شدید ہوسکتا ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق