اسپین میں تارکین وطن اپنے سماجی انضمام پر مطمئن
27 اکتوبر 2010کیا اسپین اسلام اور مسلمانوں سے خوف کی اُس لہر کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتا ہے،جو ان دنوں یورپ میں دیکھنے میں آ رہی ہے؟ اسپین میں غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کےموقع پر عشروں پہلے مقامی آبادی نے جس سماجی برداشت اورکھلے پن کا مظاہرہ کیا تھا، اُس کے بعد آج کے ہسپانوی معاشرے میں غیر ملکی تارکین وطن کتنی اچھی طرح ضم ہو چکے ہیں، یہ اندازہ اُن کی نئی نسل کو دیکھتے ہوئے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اسپین میں مسلمان تارکین وطن کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اِس دوسرے وطن میں بھی خود کو اُتنا ہی پُرسکون اور معاشرے کے مرکزی دھارے کا حصہ محسوس کرتے ہیں، جتنا کہ ترک وطن سے پہلے اپنے آبائی ملکوں میں۔
ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کے وسطی علاقے سے گزرتے ہوئے بالعموم عربی زبان بھی سنائی دے جاتی ہے۔ Lavapies نامی اِس علاقے میں کافی زیادہ روایتی عرب ریستوراں اور دکانیں بھی ہیں اور اِسی علاقے میں اکثریتی طور پر مسیحی آبادی والے ملک اسپین میں مسلم طرزِ زندگی کا بہت اچھا امتزاج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اسپین میں مسلم آبادی اپنے نسلی پس منظر کے حوالے سے بڑی متنوع ہے۔ جنوبی یورپ کے اِس ملک میں مسلمانوں کی کُل آبادی 1.3 ملین کے قریب ہے، جو 45 ملین کی مجموعی آبادی کے تین فیصد سے کچھ ہی کم بنتی ہے۔ اسپین میں مارچ 2004ء میں ملکی دارالحکومت کے جس حصے میں مسلمان انتہا پسندوں نے مسافر ریل گاڑیوں پر بم حملے کئے تھے، وہ جگہ بھی میڈرڈ میں لاواپیئس کے علاقے سے زیادہ دور نہیں ہے۔ 2004ء کے ان دہشت گردانہ حملوں میں 191 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن اِس علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں اِس وجہ سے اکثریتی آبادی کی طرف سے کسی متعصبانہ رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اسپین میں مسلمان برادری کی طرف سے کرائے گئے ایک تازہ سالانہ سروے کے مطابق جزیرہ نما آئبیریا کے اِس ملک میں 1.3 ملین مسمانوں میں سے تقریباﹰ 70 فیصد نہ صرف اسپین میں اپنی زندگی سے بلکہ اپنی سماجی صورتحال سے بھی بہت مطمئن ہیں جبکہ 80 فیصد تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کافی اچھی طرح ہسپانوی طرز زندگی اپنا چکے ہیں۔
آج اسپین میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ اسپین میں رہنے والے مسلمان مراکش کے مالکی یا مغربی افریقہ کے صوفی طریقت والے طرز فکر کے ساتھ ساتھ شیعہ، سنی اور اسلام کے ایسے ہی بہت سے دیگر مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
میڈرڈ میں مسلمان برادری سے متعلقہ امور کے ماہر بَیربابے لوپیز کہتے ہیں کہ اسپین نے بڑی تیز رفتاری سے خود کو ایک کثیر الثقافتی معاشرے میں تبدیل کر لیا ہے۔ ان کے بقول اسپین میں مختلف نسلی گروپوں کے مابین تصادم کی صورتحال نہ ہونے کے برابر ہے اور گزشتہ پندرہ برسوں میں وہاں تارکین وطن کی آمد کی شرح 12 فیصد رہی ہے۔ لوپیز کہتے ہیں کہ یہ وہ تیز رفتار تبدیلی ہے، جو یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک میں ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی۔
ہسپانوی حکومت نے غیر ملکی تارکین وطن کو سماجی انضمام کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لئے یہ بھی کیا کہ لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو رہائش اور روزگار کے باقاعدہ اجازت نامے بھی دے دئے گئے۔ اسی سوچ کے تحت گزشتہ ایک عشرے کے دوران کم ازکم ایک ملین غیر ملکیوں کو، جن کی ایک بڑی تعداد اسپین میں غیر قانونی طور پر مقیم تھی، اِس ملک میں قیام اور ملازمت کے پرمِٹ مل چکے ہیں اور اُن کے اہل خانہ کو صحت اور تعلیم جیسی جملہ بنیادی سہولتیں بھی میسر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسپین میں آج مسلمان خود کو اس معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں۔
یورپی یونین کے رکن اس ملک میں مسلمانوں کے بہتر سماجی انضمام کی موجودہ صورتحال کی ایک بڑی وجہ ہسپانوی ریاست کی طرف سے مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت بھی ہے۔ ہسپانوی آئین کے تحت اسپین میں ہر کسی کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اسی لئے وہاں یہ ممکن نہیں کہ اکا دکا واقعات میں کسی قصبے یا شہر کی طرف سے مذہبی آزادی کو، مثلاﹰ نقاب پہننے پر پابندی لگانے کی صورت میں، محدود کرنے کی کوشش کی جائے۔
اسپین میں مسلمانوں کی 80 فیصد تعداد نسلی طور پر مراکشی تارکین وطن کی ہے۔ جہاں تک اُن کے لئے روزگار کے مساوی مواقع کا سوال ہے، تو بین الا قوامی معاشی بحران کے اثرات کا مقابلہ کرتے ہوئے آج کے اسپین میں مقامی اکثریتی آبادی میں بےروزگاری کی شرح اگر 20 فیصد بنتی ہے تو ہسپانوی مسلمانوں میں روزگار کے متلاشی کارکنوں کا تناسب 30 فیصد ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی