کابل حملہ، افغانستان پاکستان کشیدگی میں پھر اضافہ
8 دسمبر 2011صدر کرزئی نے بدھ کو کہا تھا کہ پاکستانی عسکریت پسند گروپ لشکر جھنگوی العالمی سے تعلق کا دعوٰی کرنے والے ایک شخص نے ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں کو فون کر کے کابل اور مزار شریف میں حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ کابل کے ایک ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرنے کے دوران کرزئی نے کہا کہ ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور حکومت پاکستان سے اس سلسلے میں بات کریں گے۔
یوم عاشور کے موقع پر کابل کے ایک مزار کے باہر ہونے والے حملے میں 56 افراد ہلاک اور 160 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اسی دوران شمالی شہر مزار شریف میں بھی ایک حملہ ہوا تھا جس میں کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ افغانستان میں ایک دہائی سے جاری جنگ میں شیعہ مسلمانوں پر کیا جانے والا یہ پہلا حملہ ہے جس میں فرقہ واریت کا رنگ جھلکتا ہے۔
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کم از کم بعض عسکریت پسند گروپوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور اب وہ ہزارہ قوم کے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہزارہ قوم کے زیادہ تر افراد شیعہ مسلمان ہیں اور افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں کے حامی ہیں۔
تاہم اس بات پر بھی شک کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آیا کوئی غیر معروف گروپ افغانستان میں اتنے مربوط انداز میں حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل لشکر جھنگوی کی افغانستان میں کارروائیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبد الباسط نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ پاکستان افغانستان سے کہے گا کہ وہ ان حملوں میں لشکر جھنگوی العالمی کے ملوث ہونے کا ثبوت پیش کرے۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان کی حکومت اور عوام کو اس حملے سے صدمہ پہنچا ہے اور وہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے برادر افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل اطہر عباس نے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ لشکر جھنگوی کے پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے کوئی روابط ہیں یا حکومت پاکستان اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہی۔
انہوں نے کہا، ’’لشکر جھنگوی نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف بھی جنگ شروع کر رکھی ہے اور وہ فورسز پر بدترین حملوں میں ملوث ہے۔‘‘
ستمبر میں سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد بھی صدر کرزئی نے پاکستان پر نکتہ چینی کی تھی۔ افغان حکام نے الزام لگایا تھا کہ ربانی کے قتل کی سازش پاکستان کے جنوبی شہر کوئٹہ میں تیار کی گئی تھی جہاں ان کے بقول طالبان کی کوئٹہ شورٰی کے اراکین موجود ہیں۔ ابھی تک اس قتل کی تحقیقات میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔
اُدھر نومبر کے اواخر میں نیٹو کے ایک فضائی حملے میں پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاک امریکہ تعلقات بھی زوال کا شکار ہیں۔ پاکستان نے اس حملے پر بطور احتجاج افغانستان کے مستقبل سے متعلق بون کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس نے نیٹو فورسز کے لیے اپنے ملک سے گزرنے والی رسد کی ترسیل بھی بند کر رکھی ہے۔
کابل میں اس سے پہلے ہونے والے حملوں کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا جاتا رہا ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ افغانستان میں موجود ہے اور اس کے طالبان، القاعدہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ روابط ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل میں سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود اس خودکش حملے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا 2014ء میں بین الاقوامی فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان کی اپنی سکیورٹی فورسز ملک میں سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھال پائیں گی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک