پاکستان کی جانب سے بون کانفرنس کا بائیکاٹ، مغرب کا ردِ عمل
30 نومبر 2011پاکستان نے افغانستان کی سرحد سے ملحق اپنے ایک قبائلی علاقے میں نیٹو کے مبینہ حملے میں اپنے فوجیوں کی ہلاکت پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ اس حوالے سے منگل کو پاکستانی حکام نے بون کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، جو دسمبر کی پانچ تاریخ کو شروع ہو رہی ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے سے جرمنی کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور اسلام آباد کو شرکت پر قائل کرنے کے لیے جرمنی جو کر سکتا ہے وہ کرے گا۔
انہوں نے برلن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’نیٹو کے حملے میں اپنے فوجیوں کی ہلاکت پر میں پاکستان کی تشویش سمجھتی ہوں، لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہونی چاہیے کہ یہ کانفرنس بہت اہم ہے۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستان کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جنوبی کوریا میں ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج پر حملہ افسوسناک تھا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان تعاون کرے گا۔
نیٹو اور امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کے افسران نے اُمید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اس کانفرنس میں شریک ہو جائے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا ہے کہ پاکستان کے بغیر بھی کانفرنس تعمیری رہے گی۔
انہوں نے کہا: ’’اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان شرکت کرے، ہمارا اب بھی یہی خیال ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے لیے یہ قیمتی موقع ہو گا۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برطانوی دفتر خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے: ’’بون کے ایجنڈے کا انحصار پاکستان پر نہیں ہے، نہ ہی اس کی کامیابی پاکستان پر منحصر ہے، لیکن پاکستان کے لیے اچھا رہے گا اگر اس کے حکام اس میں شریک ہوں۔‘‘
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان پر زور دیا ہے کہ اسلام آباد حکام آئندہ ماہ جرمنی میں ہونے والی افغانستان کانفرنس میں شرکت کریں۔ انہوں نے اس حوالے سے منگل کو پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بات کی۔
کابل میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا: ’’صدر حامد کرزئی نے وزیر خارجہ (پاکستانی) کے بون کانفرنس میں شرکت کے لیے کہا ہے کیونکہ پاکستان کی شرکت دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔‘‘
اپنے فوجیوں پر حملے کے تناظر میں پاکستان نے امریکہ کو شمسی ایئربیس خالی کرنے کے لیے بھی کہا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ اسے ڈرون طیاروں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ یہ ایئربیس خالی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
نیٹو اور امریکہ کی جانب سے اس حملے کی تفتیش جاری ہے۔ تاہم کسی نے بھی تفتیش کے ابتدائی نتائج جاری نہیں کیے۔ پینٹا گون کے ترجمان جارج لٹل کا کہنا ہے: ’’کسی کے پاس اس کی مکمل تفصیل نہیں کہ ہوا کیا تھا۔ ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا۔‘‘
اُدھر پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل برائے ملٹری آپریشنز میجر جنرل اشفاق ندیم نے کہا ہے کہ نیٹو کا حملہ دانستہ اور کھلی جارحیت تھی۔ مقامی اخبارات کے مدیران سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ اس سے افغانستان کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: شامل شمس