کابل میں خود کش دھماکے، سات افراد ہلاک
1 اکتوبر 2014پولیس کے مطابق کابل میں دو خود کش بمباروں نے افغان فوجیوں کو لے جانے والی دو بسوں کو نشانہ بنایا۔ دارالحکومت میں کریمنل انویسٹی گیشن پولیس کے سربراہ محمد فرید افضالی کا کہنا ہے کہ کابل کے ایک مغربی علاقے میں ایک بمبار نے افغان نیشنل آرمی کے اہلکاروں کی ایک بس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں سات افراد ہلاک اور پندرہ زخمی ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا حملہ آور پیدل تھا جس نے کابل کے ایک شمال مشرقی علاقے میں ایک بس کے سامنے دھماکا کیا۔ اس کے نتیجے میں متعدد فوجی زخمی ہو گئے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
دارالحکومت میں سکیورٹی فورسز پر یہ حملہ امریکا اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی معاہدہ طے پانے کے بعد ہوا جس پر گزشتہ روز دستخط کیے گئے تھے۔
اس سمجھوتے کے تحت رواں برس غیرملکی فورسز کے انخلاء کے بعد بھی تقریباﹰ دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں قیام کر سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ساتھ طے پانے والے ایک علیحدہ معاہدے کے تحت بھی دیگر ملکوں کے ہزاروں فوجی افغانستان میں موجود رہ سکیں گے۔ آئندہ برس وہاں قیام کرنے والی غیر ملکی فورسز مقامی سکیورٹی اہلکاروں کو تربیت اور مشاورت فراہم کریں گی۔
امریکا طویل عرصے سے اس معاہدے کو ممکن بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ امریکی حکام نے شروع میں اپنے افغان ہم منصبوں کو خبردار کیا تھا کہ 2013ء کے آخر تک سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کیے گئے تو پینٹاگون کو افغانستان سے مکمل انخلاء کی منصوبہ بندی شروع کرنا پڑے گی۔ تاہم گزشتہ برس کے اختتام پر وائٹ ہاؤس نے یہ ڈیڈ لائن واپس لے لی تھی۔
امریکا نے اپنی سرزمین پر گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت گرانے میں مدد دی تھی۔ اس بات کو ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق افغانستان آج بھی اسلام پسند گروہوں کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے جو باقاعدگی سے حملے کرتے رہے ہیں اور ان کا بڑا ہدف سکیورٹی فورسز ہی ہوتی ہیں۔
حالانکہ امریکی فورسز کی ایک محدود تعداد افغانستان میں موجود رہے گی لیکن شدت پسندوں پر قابو پانے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کی اہلیت پر پھر بھی سوال پائے جاتے ہیں۔