’جعلی پولیس مقابلہ‘: کراچی کے ایس ایس پی راؤ انوار معطل
20 جنوری 2018پاکستانی صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور جنوبی بندرگاہی شہر کراچی سے ہفتہ بیس جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سندھ پولیس کے اعلیٰ افسر راؤ انوار نے، جو کراچی کے ایس ایس پی بھی ہیں، چند دیگر افسران کے ساتھ مل کر گزشتہ ہفتے کراچی ہی میں مشتبہ طالبان عسکریت پسندوں کے ایک مبینہ ٹھکانے پر چھاپے کے دوران ایک نام نہاد ’پولیس مقابلے‘ میں چار افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
نقیب کی ہلاکت: سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا
نقیب کی ہلاکت کیا ماورائے عدالت ہے؟
ان میں سے ایک 27 سالہ نقیب اللہ محسود بھی تھا، جو پیدائشی طور پر پاکستانی قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا رہنے والا تھا اور کئی برسوں سے کراچی میں رہائش پذیر تھا۔ نقیب اللہ کی ہلاکت کے چند روز بعد اس کے اہل خانہ اور رشتے داروں کو اس کی لاش کراچی کے ایک مردہ خانے سے ملی تھی اور انہوں نے الزام لگایا تھا کہ کراچی پولیس کے نقیب اللہ کے مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ساتھ رابطوں کے جملہ دعوے غلط اور من گھڑت ہیں۔
نقیب اللہ کے اہل خانہ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ نوجوان تو ایک ماڈل بننا چاہتا تھا اور 2008ء میں روزگار کی تلاش میں کراچی منتقل ہوا تھا، جہاں وہ اپنی ہلاکت سے قبل تک ایک دکان چلاتا تھا۔ محسود قبیلے کے اس نوجوان کی موت پر پورے پاکستان میں شدید مذمت اور احتجاج کا آغاز ہو گیا تھا اور کئی شہروں میں تو پولیس کے ہاتھوں ان مبینہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر نقیب اللہ کی کئی ایسی تصویریں بھی وائرل ہو گئی تھیں، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ نوجوان محض ماڈلنگ کا بہت شوقین تھا۔
مظفر گڑھ واقعہ: پولیس مقابلہ یا ماورائے عدالت قتل؟
لشکر جھنگوی کا سربراہ ملک اسحاق، تیرہ دیگر شدت پسند ہلاک
نقیب اللہ سمیت چار افراد کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد سندھ حکومت نے ایک کمیٹی بھی قائم کر دی تھی، جس نے کل جمعہ انیس جنوری کو اس سلسلے میں راؤ انوار کے بیانات بھی ریکارڈ کیے تھے۔ اس کمیٹی نے سفارش کی تھی اور پھر فوراﹰ ہی اس بارے میں ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا تھا کہ راؤ انوار کو فی الفور ان کی ذمے داریوں سے ہٹا دیا جائے۔
اے ایف پی کے مطابق اب راؤ انوار اپنے عہدے سے معطل ہو چکے ہیں اور سندھ حکومت نے ان کا نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ نامی اس سرکاری فہرست میں بھی شامل کر دیا گیا ہے، جس میں ان افراد کے نام درج ہوتے ہیں، جن کے ملک سے باہر جانے پر پابندی ہوتی ہے۔
پروفیسر عارف کی موت، سیاسی اثرات کیا ہوں گے
کراچی: نئی سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کا شکار
سرکاری نوٹیفیکیشن کے مطابق راؤ انوار کی معطلی کا مقصد یہ ہے کہ کراچی میں چار افراد کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے واقعے کی قطعی طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کی تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کی طرف سے راؤ انوار کے علاوہ ان کی ٹیم میں شامل ان کے ساتھی دیگر افسران کے نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیے گئے ہیں۔
اسی بارے میں پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ان مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس سلسلے میں کراچی میں صوبائی حکومت سے ایک ہفتے کے اندر اندر ایک تفصیلی رپورٹ بھی طلب کر چکے ہیں۔
ایم کیو ایم اور پی ایس پی: اتحاد اور پھر ’علیحدگی‘
اے ایف پی کے مطابق راؤ انوار پر الزام ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی چند دیگر پولیس افسران مبینہ طور پر کئی ایسے جعلی پولیس مقابلے کر چکے ہیں، جن میں طالبان کے ساتھ مبینہ تعلقات کے شعبے میں متعدد افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔