کرکٹ میں حکومتی اثر ختم کرنے کی تجویز، پاکستان کی مخالفت
27 جون 2011لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کے آئین میں مجوزہ ترمیم اور روٹیشن پالیسی دونوں کے ختم کیے جانے کا سخت مخالف ہے۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد اس کی پاسداری نہ کرنے والے ممالک کی آئی سی سی کی رکنیت معطل ہو جائے گی ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اس جمہوری طرز کی روایت کا سب سے بڑا مخالف بن کر کیوں سامنے آیا ہے؟
اس بارے میں سابق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر سکندر بخت کہتے ہیں، ’’ایسا ہونے سے پاکستان کرکٹ میں پاور گیم ختم ہو جائے گا اور جو لوگ ایوان صدر سے سفارش لگوا کے پی سی بی کا چیئر مین بنتے اور مزے اڑاتے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے۔‘‘
ریڈیو ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے سکندر بخت کا کہنا تھا، ’’جب ملک کے صدر آصف زرداری ،جو پی سی بی کے پیٹرن ہیں جمہوریت کی وجہ سے صدر بنے ہیں تو پی سی بی کو کرکٹ میں بھی اس جمہوری تبدیلی کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔کیوں کہ ہم سب مارشل لاء کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں ہیں‘‘۔
آئی سی سی کے سابق صدر احسان مانی نے آئی سی سی کے آئین میں مجوزہ تبدیلی کو پاکستان اور عالمی کرکٹ کے مفاد میں قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں ریڈیو ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے احسان مانی کا کہنا تھا کہ اگر مجوزہ قوانین کا درست نفاذ ہو گیا تو کرکٹ کے کھیل کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش اور انڈیا بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جہاں حکومتیں کرکٹ بورڈ کے معاملات میں مخل ہوتی ہیں۔
کھیل کی گورننگ باڈی کے اس اجلا س میں پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کی صدارت کے کےلیے رائج موجودہ روٹیشن پالیسی ختم کرنے کی بھی مخالفت کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ روٹیشن کے طریقہ کار کے تحت ۲۰١۴ میں آئی سی سی صدر کےلیے نامزدگی پاکستان اور بنگلہ دیش کو کرنی تھی مگر حیران کن طور پر بنگلہ دیشی بورڈ نے اس معاملے میں ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ روٹیشن پالیسی کے تحت آئی سی سی کے صدر بننے والےواحد پاکستانی احسان مانی اس صورتحال کا ذمہ دار بھارتی بورڈ کے عہدیداروں کو ٹھہراتے ہیں۔
مانی نے کہا کہ بھارت گز شتہ پندرہ برس میں کرکٹ کی سب سے بڑی کمرشل مارکیٹ رہا ہے مگر پہلے وہاں کرکٹ چلانے کو اولیت دیتے تھے اب وہ اس مالی طاقت کو سیاست کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان سے ورلڈکپ کی میزبانی سے لے کر اسے آئی پی ایل اور چمپئنز لیگ سے الگ کرنا اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں کو بھارتی بورڈ کی اس پالیسی کو راستہ روکنا چاہیے، جو اپنے ایک عہدیدار کو اس نئے راستے سے آئی سی سی کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آئی سی سی کے اسی اجلاس میں طے پانے والے فیوچر ٹور پروگرام کے تحت اگلے آٹھ برسوں میں پاکستان کو ماضی کے مقابلے کہیں کم ٹیسٹ میچز ملنے کی شنید ہے۔ وہ آئی سی سی کہ جہاں کبھی نور خان اور عارف علی عباسی کا طوطی بولتا تھا پاکستان کو دیوار سے لگانے پر کیوں تل گیا ہے؟ اس بارے میں سکندر بخت کہتے ہیں اس کی ذمہ داری کرکٹ بورڈ پر ہے، جب پی سی بی کا چئیرمین انگلینڈ کے کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزامات لگائے اور اپنے کھلاڑیوں کے گناہوں کی حمایت کرے تو پھر پاکستان کے ساتھ کوئی بورڈ دوستی نہیں کرے گا۔ واضح رہے کہ آئی سی سی کی سالانہ کانفرنس سنگا پور میں جاری ہے، جس کا اختتام تیس جون کو ہوگا۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد