کوئٹہ میں دو خود کُش حملے، 25 افراد ہلاک
7 ستمبر 2011یہ بات کوئٹہ پولیس کے سربراہ احسن محبوب نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔ یہ خود کش حملے ایک ایسے وقت پر کئے گئے ہیں، جب دو روز قبل سیکورٹی حکام نے کوئٹہ سے یونس الموریطانی سمیت القاعدہ کے تین اہم رہنماؤں کو گرفتارکرنے کا اعلان کیا تھا۔ آج کے ان خود کش حملوں کے ایک عینی شاہد نے بتایا:’’انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے ایک پجیرو گاڑی آہستہ آہستہ جا رہی تھی کہ گیٹ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ کالے شیشوں والی گاڑی میں ایف سی والے بائیں طرف مڑ رہے تھے کہ پجیرو گاڑی نے سپیڈ کے ساتھ ایف سی کی گاڑی کو ٹکر مار دی، پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔ میں نے نہیں دیکھا کہ فائرنگ کس نے کی۔ اس کے بعد ہر طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں۔‘‘
انتہائی سخت سکیورٹی والے علاقے میں اس نوعیت کے خونریز حملوں کو حفاظتی اقدامات کی ناکامی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ جمہوری وطن پارٹی کے رہنما صاحبزادہ طلال بگٹی نے ایف سی بلوچستان کے سربراہ میجر جنرل عبید اللہ خٹک اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا:’’موجودہ حکومت کو اتنا اختیار ہی نہیں اور نہ ہی ان کے منشور، دستور یا ہدف میں ہے کہ حالات ٹھیک کئے جائیں۔ ایک ٹولہ ہے، جو اپنی جیبیں بھر رہا ہے۔ وزیر اعظم ہوں، صدر ہوں یا رحمان ملک، ان کے ایم این اے اور ایم پی اے ہوں، بلوچستان میں 66 ایم پی اے ہیں، سب کے سب وزیر ہیں اور ایسے کھانے پینے میں لگے ہیں، جیسے پھر باری آئے یا نہیں۔‘‘
امریکہ کی جانب سے یونس الموریطانی کی گرفتاری کو اہم قرار دیتے ہوئے پاکستان کی تعریف کی گئی تھی۔ تاہم دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) عبد القیوم کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اب بھی اچھی طرح سے اس بات کا احساس نہیں کہ پاکستان ان کی جنگ کی کتنی بڑی قیمت چکا رہا ہے۔ انہوں نے کہا:’’پاکستان تو بڑی بھاری قیمت پر تعاون کر رہا ہے اور یہ حملہ بھی ایک قیمت ہے، جو ہم نے ادا کی۔ ہماری القاعدہ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں، نہ القاعدہ نے پاکستان کے اندر کسی قسم کا حملہ کیا تھا۔ یہ تو سب کچھ امریکہ کا اپنا کیا ہوا ہے، اس لئے اس میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ یہ مشکل ترین دور ہے اور اس سے گزرنے کے لیے ہمیں چوکنا رہنا ہے اور ہماری قیادت کو صدارتی سطح پر بھی کوشش کرنی ہے۔‘‘
دریں اثناء صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کوئٹہ خود کش حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی