کورونا اور اسقاط حمل: بلا خواہش حاملہ خواتین کے مصائب
9 جولائی 2020خواتین کے حقوق کی تنظیم "ویمن ویب" سے تعلق رکھنے والی ہزال اتے کا کہنا ہے "یہ ایک شرم کی بات ہے۔ اس وقت جب خواتین کو زیادہ مدد کی ضرورت ہے، چند ممالک آمرانہ اقدامات سے اسقاط حمل یا ايسی سہولت فراہم کرنے والی ايک ویب سائٹ تک خواتین کی رسائی مشکل بنا رہے ہیں۔" تنظیم کے مطابق، سعودی عرب اور ترکی سمیت کچھ ممالک میں خواتین کی "ویمن ویو ڈاٹ آرگ" تک رسائی روک دی گئی ہے۔
اس پلیٹ فارم کا مقصد بنیادی طور پر ان ممالک کی خواتین کو مدد فراہم کرنا ہے ہیں جہاں اسقاط حمل کی ممانعت ہے یا یہ عمل محدود شرائط کے تحت ہی ممکن ہے۔
خواتین کے حقوق کی تنظیم کے مطابق ، کورونا کا وبائی مرض پھیلنے کے بعد سے پوری دنیا میں محفوظ اسقاط حمل تک رسائی مشکل تر ہو گئی ہے۔ کینیڈا میں قائم یہ نیٹ ورک ، جو 2006ء سے فعال ہے، نا پسندیدہ یا بلا خواہش حمل کے اسقاط کے لیے حاملہ خواتین کو گولیوں کی فراہمی کی پیش کش کرتا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ہزال اتے نے کہا، "بہت سے ممالک میں طبی عملہ اور ہسپتال COVID-19 کے کیسز میں مشغول ہيں اور اسقاط حمل کی سہولیات یا تو بند ہیں یا يہ بہت محدود پيمانے پر دستياب ہيں۔"
'گوگل تجزیات کے مطابق ہر مہینے قریب 20 لاکھ خواتین اس صفحے پر کلک کرتی ہیں، جو 22 زبانوں میں دستیاب ہے۔ سب سے زیادہ کال کرنے والے 20 ممالک کی فہرست میں برازیل پہلے نمبر پر ہے، اس کے بعد میکسیکو، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، پولینڈ اور امریکا۔
اسپین میں ویب سائٹ پر پابندی
یورپی ملک اسپین میں حال ہی میں اس ویب سائٹ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
ڈی ڈبلیو کی درخواست پر ہسپانوی وزارت صحت نے اس اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسپین میں اسقاط حمل کی ایسی گولیاں جن کے لیے ڈاکٹر کا نسخہ درکار ہو، اُن کی انٹرنیٹ کے ذریعے تقسیم کی اجازت نہیں ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ "ہسپانوی ادارہ برائے میڈیسن اینڈ میڈیکل ڈیوائسز (Aemps) ان دوائیوں کے لیے خطرہ مول نہیں لے سکتا جن کی اصلیت معلوم نہیں ہو اور جنہیں ڈاکٹروں کی نگرانی کے بغیر لینے کی اجازت نہیں ہے۔"
وزارت نے مزید کہا کہ ایسی ویب سائٹس کی ضرورت ایسے معاشروں میں ہے جہاں اسقاط حمل کی اجازت قانونی طور پر نہیں ہے۔ لیکن اسپین میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ابتدائی تین ماہ میں اسقاط حمل کی قانونی اجازت ہے۔
مالٹا سے مدد کی پکار
"ویمن ویب" سے تعلق رکھنے والی ہزال اتے نے جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کورونا وبا کے سبب یورپ میں سرحدی بندشوں نے ایسی خواتین کو بہت متاثر کیا ہے جو اپنی خواہش کے بغیر حاملہ ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''سرحدیں بند ہونے اور کورونا کے سد باب کے لیے لگنے والی پابندیوں کے بعد سے ہمیں مالٹا سے ایسی خواتین کی ٹیلی فون کالز کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ وہ پریشان ہیں کہ انہیں بذریعہ پوسٹ اسقاط حمل کی گولیاں نہیں پہنچیں گی۔‘‘
ادھر جرمنی میں بھی نا پسندیدہ اسقاط کو ضائع کرنے کے لیے خواتین کی طرف سے اپنی چار دیواری کے اندر اسقاط حمل کی گولیاں لینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کا اندازہ ویب سائٹ،'' ویمن ویب ڈاٹ اورگ‘‘ پر بہت زیادہ کلکس کی تعداد سے ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جرمنی نمبر 17 پر ہے۔
خواتین کو بدنامی کا ڈر
ہزال اتے کہتی ہیں کہ مذکورہ ویب سائٹ جرمنی میں کیوں اتنی وزٹ کی جاتی ہے، اس بارے میں محص قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں "ہوسکتا ہے کہ اسقاط حمل کے بارے میں معلومات کا فقدان ہو یا بدنامی کا خوف ہو یا ہیلتھ انشورنس یا رہائشی اجازت نامے کی عدم موجودگی ہو۔"
جرمنی کی وفاقی وزارت برائے امور خواتین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ "ویمن ویب" کے ساتھ اس کا کوئی تعاون یا معاہدہ نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت کے ایک ترجمان نے واضح کیا کہ فارمیسی سے خود نسخے کے ذریعے دوائی لینے اور ٹیلی میڈیکل سپورٹ کے نام نہاد گھریلو استعمال کی جرمنی میں اجازت نہیں ہے۔
بہر حال جرمنی میں چند شرائط کےساتھ اسقاط حمل کی کوئی سزا نہیں ہے۔
آسٹرڈ پرانگے/ ک م/ ع س