کورونا وائرس: کلینکس کی بندش خواتین کے لیے تباہ کن
10 اپریل 2020کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں جاری لاک ڈاؤن کا ایک نتیجہ خواتین کی جنسی صحت سے متعلق ہزاروں کلینکس کی بندش کی صورت میں نکلا ہے۔ خواتین کی جنسی صحت سے متعلق ہزاروں مراکز چلانے والے عالمی ادارے انٹرنیشنل پلانڈ پیرنٹ ہُڈ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں لاکھوں خواتین کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
’مزید بچے پیدا نہیں کر سکتی، مگر شوہر نہیں مانتا‘
بھارت، گندے نالے سے انیس بچیوں کے جنین برآمد
دنیا بھر میں خواتین کے لیے محفوظ اسقاط حمل اور ایچ آئی وی ٹیسٹ اور ادویات تک رسائی دینے والے سب سے بڑے ادارے کے مطابق کووِڈ انیس کی وجہ سے لاک ڈاؤنز، سماجی فاصلے اور اسٹاف کی کمی نے خواتین کے لیے شدید نوعیت کے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ یہ ادارہ خواتین کو اسقاط حمل اور جنسی بنیادوں پر تشدد کے حالات میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ تاہم اس ادارے کے زیرانتظام چلنے والے پانچ ہزار چھ سو مراکز اس وقت بندش کا شکار ہیں۔
اس عالمی ادارے کے ایک ترجمان نے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں کہا، ''ہم دیکھ رہے ہیں کہ خواتین کی مانع حمل ادویات تک رسائی ممکن نہیں رہی ہے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ انہیں غیرمتوقع حمل کے ساتھ ساتھ انہیں قانونی اور محفوظ اسقاط حمل تک محدود رسائی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس طرح یہ غیرمحفوظ اسقاط حمل کا راستہ اپنا سکتی ہیں اور اس وجہ سے خواتین کی اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
جنسی صحت سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں نے یورپی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسقاط حمل تک رسائی کو بنیادی انسانی حق تسلیم کریں، جسے وبائی صورت حال میں بھی تحفظ دیا جائے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی اور اقتصادی تناؤ سے گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق پاکستان، ایل سیلواڈور، زیمبیا، سوڈان، کولمبیا اور جرمنی میں اس تنظیم کے سو سے زائد کلینکس بند ہوئے ہیں، جہاں غریب خواتین کی جنسی صحت سے متعلق معاملات میں مدد کی جاتی تھی۔
اس تنظیم کے مطابق کئی مقامات پر انہیں مانع حمل اور ایچ آئی وی سے متعلقہ ادویات کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ آئی پی پی ایف کے ڈائریکٹر جنرل الوارو بیرمیجو نے دنیا بھر کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ خواتین کی جنسی صحت سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلی لائیں۔