1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت، گندے نالے سے انیس  بچیوں کے جنین برآمد

صائمہ حیدر
6 مارچ 2017

بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں پولیس کا کہنا ہے کہ اُسے ایک گندے نالے سے اسقاطِ حمل کے نتیجے میں ضائع کر دی جانے والی انیس بچیوں کے جنین کی باقیات ملی ہیں۔ یہ باقیات  ایک نجی ہسپتال کے قریب سے برآمد ہوئیں۔

https://p.dw.com/p/2YiPq
Indien Schwangere Frau Ultraschallbild Geschlechterselektion
بھارت بھر میں ماں کے پیٹ میں لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاطِ حمل وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/M. F. Calvert

مہاراشٹر کے ضلع سانگلی میں پولیس کے نائب سربراہ کرشنا کانت اُپدھائے نے آج بروز پیر بتایا کہ انیس غیر مولود بچیوں کی باقیات پولیس کو گزشتہ روز شام کے وقت ملیں ۔ مہاراشٹر کی حکومت نے اِس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ یہ انکوائری اِن الزامات کی بنیاد پر کی جائے گی کہ یہ اسقاطِ حمل ، بچے کی جنس کا تعین کرنے والے ٹیسٹ کے بعد عمل میں لائے گئے، جو بھارت میں غیر قانونی ہے۔

 اُپدھائے نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے بتایا،’’ ہم غیر قانونی اسقاط حمل کے نتیجے میں ایک خاتون کی موت کی تحقیقات کر رہے تھے جب ہمیں یہ مردہ فیٹَس ملے۔‘‘ اُپدھائے نے بتایا،’’ ایسی اطلاعات ہیں کہ مذکورہ ہسپتال مبینہ طور پر غیر مولود بچے کی جنس کے تعین کے ساتھ ساتھ اسقاطِ حمل کی خدمات بھی مہیا کر رہا تھا۔‘‘

 ضلع سانگی کے نائب پولیس سربراہ کا کہنا تھا کہ ہسپتال چلانے والا  ڈاکٹر جو مرکزی ملزم  بھی ہے، مفرور ہے تاہم غیر قانونی اسقاط حمل کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی خاتون  کے شوہر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اگرچہ بھارت میں پیدائش سے قبل بچے کی جنس کے تعین پر قانوناﹰ پابندی ہے اور اس حوالے سے آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے، اس کے باوجود بھارت بھر میں ماں کے پیٹ میں لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاطِ حمل وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے۔

Flash-Galerie Indien Klinik
بھارت میں پیدائش سے قبل بچے کی جنس کے تعین پر قانوناﹰ پابندی ہےتصویر: AP

 سن 2014 میں بھارت میں ہر 1000 لڑکوں کے مقابلے میں 887 بچیاں پیدا ہوئیں۔ یہ تعداد اُس عالمی اوسط تعداد سے کہیں کم ہے جو سن 2014 میں 1000 لڑکوں کے مقابلے میں 934 بچیاں رہی تھی۔

جنس کے تعین کے بعد اسقاطِ حمل کرانا بھارت میں رائج اُس دیرینہ سوچ کا نتیجہ ہے جس کے مطابق لڑکیاں والدین کے لیے معاشی طور پر بوجھ ہوتی ہیں اور اُن کے جہیز کے لیے بہت رقم درکار ہوتی ہے جبکہ لڑکے گھر کی کفالت اور بڑھاپے میں اپنے والدین کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

مہاراشٹر میں خواتین اور بچوں کی بہبود کے وزیر پنکج منڈے نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ یہ بہت دل ہلا دینے والا اور قابلِ مذمت واقعہ ہے۔ بچیوں کو محفوظ بنانے کے لیے اُن کے والدین کی طرف سے مدد بہت ضروری ہے۔ اِس بات کو اہمیت دیے بغیر کہ بچے کی جنس کیا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید