1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا پاکستان کے ليے امريکی امداد کی معطلی چين کے ليے موقع ہے؟

عاصم سلیم | شامل شمس
6 جنوری 2018

سلامتی کی مد ميں پاکستان کو دی جانے والی امريکی مالی امداد کی جزوی معطلی کے بعد امکان ظاہر کيا جا رہا ہے کہ پاکستان کا چين طرف جھکاؤ بڑھے گا۔ تاہم يہ رشتہ دو دھاری تلوار کی مانند ہو گا اور اس سے کئی مسائل بھی منسلک ہيں۔

https://p.dw.com/p/2qQa9
Chinesischer Präsident Xi Jinping in Pakistan
تصویر: picture-alliance/Zumapress/Pang Xinglei

پاکستان اور امريکا کے مابين جاری کشيدگی کی تازہ لہر ميں اسی ہفتے جمعرات کے روز واشنگٹن حکومت نے پاکستان کو سلامتی کی مد ميں فراہم کی جانے والی امداد کو معطل کرنے کا اعلان کيا۔ ايسے ميں چين کے پاس، جو پاکستان ميں قريب ساٹھ بلين ڈالر ماليت کے منصوبے سی پيک پر کام کر رہا، يہ موقع ہے کہ وہ پاکستان ميں اپنا اثر و رسوخ مزيد بڑھا سکے۔ تاہم يہ بات فی الحال واضح نہيں کہ آيا بيجنگ حکومت اسلام آباد کے ليے اپنی دفاعی امداد بھی بڑھائے گی۔ اور اگر ايسا ہوتا بھی ہے، تو کيا ايسی کوئی ممکنہ اضافی امداد امريکا کی طرف سے دی جانے والی امداد کی معطلی کے بعد پيدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے ليے کافی ہو گی۔

يکم جنوری کو سال نو کے موقع پر امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر کڑی تنقيد کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پيغام ميں لکھا تھا کہ ان کا ملک ’پاکستان کو بے وقوفانہ طور پر پچھلے پندرہ سالوں ميں تقريباً تينتيس بلين ڈالر کی دفاعی امداد فراہم کر چکا ہے، جس کے بدلے ميں واشنگٹن کو صرف جھوٹ اور دھوکے ملے ہيں‘۔ ٹرمپ نے ايک مرتبہ پھر يہ الزام لگايا کہ افغانستان ميں حملے کرنے والے جنگجوؤں کو پاکستان ميں پناہ گاہيں فراہم ہيں۔ امريکی صدر نے بعدازاں چار جنوری کو پاکستان کے ليے نو سو ملين ڈالر امداد معطل کرنے کا اعلان کر ديا۔

چين کا رد عمل

چينی دارالحکومت بيجنگ ميں قائم ’چائنيز اکيڈمی آف سوشل سائنسز‘ سے منسلک ايک ماہر يی ہيلن نے اس پيش رفت پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امريکا کی طرف سے امداد کی معطلی درست نہيں ہے۔ ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ايسا نہيں ہے کہ امريکا نے پاکستان کو امداد دی اور بدلے ميں اسے کچھ نہيں ملا، پاکستان نے افغانستان ميں تعينات امريکی دستوں کو ساز و سامان سپلائی کيا  اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔‘‘

دريں اثناء ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر پيغامات کے بعد اگلے ہی دن چينی وزارت خارجہ کے ترجمان گينگ شوانگ پاکستان کے دفاع کے ليے ميدان ميں کود پڑے۔ ايک پريس کانفرنس ميں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو سراہا اور يہ يقين دہانی بھی کرائی کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ شوانگ کا مزيد کہنا تھا، ’’چين متعدد شعبوں ميں پاکستان کے ساتھ تعاون کو مزيد بڑھانے کے ليے تيار ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔‘‘

يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا پاکستان اور چين کے مابين اسٹريٹيجک پارٹنرشپ، پاک امريکی تعلقات کے متبادل کے طور پر جگہ لے سکتی ہے؟ بالخصوص اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امريکی فوجی اڈے خطے ميں پھيلے ہوئے ہيں اور واشنگٹن حکومت پاکستان کے روايتی حريف ملک بھارت کے ساتھ تعاون بڑھانے کو بھی تيار کھڑی ہے۔

پاکستانی شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے دفاعی امور کے ماہر حسن عسکری نے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’يہ سچ ہے کہ چين پاکستان کی کافی مدد کر رہا ہے تاہم وہ امريکا کی جگہ نہيں لے سکتا۔‘‘

 ان کے بقول امريکا نے دو طرفہ تعلقات کو بالکل ختم کرنے کی بات نہيں کی ہے، وہ صرف يہ چاہتا ہے کہ اسلام آباد حکومت اس کے مطالبات پورے کرے۔

اس کے برعکس ايک اور دفاعی تجزيہ نگار امجد شعيب کا کہنا ہے کہ پاکستان، امريکا اور چين دونوں ہی کی امداد کے بغير بھی کام چلا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’فوجی ساز و سامان کی خريداری ميں کچھ  دقت آئے گی ليکن وہ ديگر کئی ملکوں سے خريدا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ پاکستان ايف سولہ لڑاکا طياروں کا کچھ سامان ترکی سے خريد چکا ہے جب کہ يوکرائن سے ٹينک بھی خريدے جا چکے ہيں۔

ملازمتوں کی امید، پاکستانی چینی زبان سیکھنے لگے

اصل مسئلہ امداد کی کٹوتی نہيں ’دہشت گردی‘ ہے

امريکا در اصل چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان اور حقانی نيٹ ورک کے خلاف فيصلہ کن کارروائی کرے۔ گزشتہ برس ستمبر ميں برکس کے رکن ممالک برازيل، روس، بھارت، چين اور جنوبی افريقہ نے بھی پاکستان ميں لشکر طيبہ اور حقانی نيٹ ورک جيسے گروہوں کی موجودگی پر تحفظات کا اظہار کيا تھا۔ پاکستانی دارالحکومت ميں ايک تعليمی ادارے سے منسلک ماہر ڈاکٹر امن ميمن نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ يہ اعلاميہ پاکستان کے ليے ايک واضح پيغام تھا کہ روس اور چين بھی پراکسی جنگوں کے ليے پاکستان کی ايسے گروہوں کی حمايت برداشت نہيں کريں گے۔

گوادر پورٹ ’ترقی کا زینہ‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں