1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بنگلہ دیش چین اور روس سے قریب تر ہو رہا ہے؟

16 جون 2023

وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اب واشنگٹن کی اہمیت کو کم کرنے اور دوسرے ممالک کو دوست بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن ان کے یہ بیانات حقوق کی خلاف ورزیوں پر نکتہ چینی کے حوالے سے مغربی دباؤ کو کم کرنے میں شاید مددگار ثابت نہ ہوں۔

https://p.dw.com/p/4Sel7
Sheikh Hasina Wajed Premierminister Bangladesch 10. Asem Summit in Mailand
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildfunk

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے حال ہی میں کہا کہ اگر ان کے ملک کے لوگ امریکہ نہ جائیں، تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ''دنیا میں دیگر سمندر اور دوسرے براعظم بھی ہیں۔''

بنگلہ دیش: چائے مزدور گرمی اور خشک سالی سے بے حال

انہوں نے کہا، ''جو ہمیں ویزا نہیں دیں گے، ہم ایسے ملکوں پر انحصار نہیں کریں گے۔''

بنگلہ دیش میں بجلی کا بدترین بحران

ان کے یہ بیانات واشنگٹن کی جانب سے اس تنبیہ کے جواب میں آئے ہیں، جس میں امریکہ نے کہا تھا کہ وہ ایسے بنگلہ دیشی شہریوں پر ویزا کی پابندیاں عائد کردے گا، جو اندرون ملک جمہوری انتخابی عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے پاس ایندھن خریدنے کے لیے ڈالروں کی کمی

بنگلہ دیش میں جنوری 2024 تک عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ملک کے لیے نئی امریکی ویزا پالیسی کا اعلان اس سے قبل ہی کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کا سرکاری ’ڈیتھ اسکواڈ‘ ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث

 واضح رہے کہ سن 2014 اور 2018 کے گزشتہ دو عام انتخابات بڑے پیمانے پر دھاندلیوں اور اپوزیشن کارکنوں کو دھمکانے کے الزامات سے متاثر رہے تھے۔ تاہم حسینہ کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔

بنگلہ دیش کی پہلی میٹرو لائن کا افتتاح کر دیا گیا

کیا بنگلہ دیش امریکی جدائی برداشت کر سکتا ہے؟

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکہ بنگلہ دیشی مصنوعات کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، جس نے سن 2021 میں 8.3 ارب ڈالر کی مالیت کا سامان درآمد کیا۔ امریکی کمپنیاں بھی اس مسلم اکثریتی ملک میں سب سے بڑے غیر ملکی سرمایہ کاروں میں شامل ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ سے متعلق شیخ حسینہ کے ریمارکس ''انحراف کی کوشش'' کی طرح لگتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک ''اکڑ فوں '' ہے۔

واشنگٹن میں واقع ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فارا سکالرز کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''بنگلہ دیشی سیاسی طبقے، جس میں خود حسینہ بھی شامل ہیں، کے خاندان کے افراد امریکہ میں رہتے ہیں، اس تناظر میں یہ کہنا گمراہ کن بات ہو گی کہ امریکہ جانے کی صلاحیت سے محروم ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔''

Kombibild Sheikh Hasina und Joe Biden
بنگلہ دیش نے اپنے برکس منصوبوں کا اعلان اس وقت کیا جب اسے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئلہ اور دیگر ایندھن درآمد کرنے کے لیے امریکی ڈالر کی کمی کا سامنا تھا

جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار اور برلن کی ہمبولڈ یونیورسٹی میں گیسٹ لیکچرر جیسمین لورش نے کوگل مین کے خیالات کی تائید کی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ کے ارکان کا امریکہ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔

لارش نے کہا، ''شیخ حسینہ تیزی سے امریکہ مخالف بیان بازی پر انحصار کرتی جا رہی ہیں۔ اسی دوران عوامی لیگ کے بہت سے اعلیٰ عہدے دار اور پارٹی کے ہمدرد تعطیلات کے لیے امریکہ بھی جا رہے ہیں یا اپنے بچوں کو امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھاتے ہیں۔''

 برکس میں شمولیت سے کیا بنگلہ دیش کو 'فائدہ' ہو سکتا ہے؟

بنگلہ دیش رواں برس اگست میں برکس میں شمولیت کا ارادہ رکھتا ہے۔ وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے حال ہی میں جنیوا میں وزیر اعظم شیخ حسینہ اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کے درمیان ملاقات کے بعد ایک پریس بریفنگ کے دوران اس فیصلے کی تصدیق بھی کی۔

برکس برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ ممالک پر مشتمل ہے، جو مغربی تسلط والے عالمی مالیاتی اداروں سے باہر ایک سفارتی فورم اور ترقیاتی فنانسنگ کی پیشکش کرتا ہے۔

بنگلہ دیش نے اپنے برکس منصوبوں کا اعلان اس وقت کیا جب اسے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئلہ اور دیگر ایندھن درآمد کرنے کے لیے امریکی ڈالر کی کمی کا سامنا تھا۔

کوگل مین نے کہا کہ برکس میں شمولیت سے بنگلہ دیش کو فائدہ ہو سکتا ہے، اگر یہ صحیح طریقے سے کیا جائے۔

ان کا کہنا ہے، ''اگر ڈھاکہ اپنا کارڈ صحیح طریقے سے کھیلتا ہے، تو اسے برکس میں شرکت کرنے سے بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے، اس کے ساتھ ہی مغرب کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو بڑھانا بھی جاری رہے۔''

انہوں نے مزید کہا، ''ڈھاکہ کے لیے یہ غلط ہو گا کہ وہ محض مغرب کی مخالفت کرنے کے لیے برکس میں شمولیت اختیار کرے۔ تاہم وہ یقینی طور پر اس سے اپنی خارجہ پالیسی کے مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد حاصل کر سکتا ہے۔''

چین کا خودمختاری کے تحفظ کا عزم

برکس میں شمولیت کا اعلان ایسے وقت میں آیا، جب چین نے بنگلہ دیش کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے حمایت کا اظہار کیا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے اسی ہفتے بدھ کے روز کہا تھ کہ چین ''بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ ہر قسم کی تسلط پسندی اور طاقت کی سیاست کی مخالفت کی جا سکے... اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک کمیونٹی کی تعمیر ہو سکے۔''

لارش نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے خود کو امریکہ اور یورپی یونین سے دور کرتی رہی ہے اور چین اور روس کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔

ان کے مطابق، ''چین اور روس نے عوامی لیگ کی بڑھتی ہوئی آمریت پر تنقید کیے بغیر بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے اقتصادی تعاون کو تیز کر دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی اقتصادی مدد کے برعکس، بنگلہ دیش کے بنیادی ڈھانچے میں چینی سرمایہ کاری کے لیے انسانی حقوق، گڈ گورننس یا جمہوریت کے لیے کوئی شرط نہیں رکھی جاتی ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ ''اس سے عوامی لیگ کو نام نہاد مغربی عطیہ دہندگان پر اپنا انحصار نمایاں طور پر کم کرنے کا موقع ملا ہے۔'' تاہم لارش نے کہا کہ آمرانہ ممالک پر بڑھتا ہوا انحصار بنگلہ دیش کے جمہوری مستقبل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

گرچہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ وزیر اعظم حسینہ مغربی دباؤ کو کس طرح ٹال سکتی ہیں، تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کو جمہوری راستے پر چلنے کے لیے آزادانہ، منصفانہ، جامع اور شرکت پر مبنی قومی انتخابات کی ضرورت ہے۔

ص ز/ ج ا (اشرف الاسلام)

سقوط ڈھاکہ اور اس کے زخم