کینسر کے علاج میں اب سائیکو اونکالوجی سے مدد
3 فروری 2023ہر برس دنیا بھر میں لاکھوں افراد میں سرطان کے مرض کی تشخیص ہوتی ہے۔ بہت سے افراد کے لیے یہ خبر دہشت ناک ہوتی ہے۔ سرطان کی تشخیص اور دوران علاج مریض کو کئی طرح کے نفسیاتی اور جذباتی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔
امراض قلب، ذیابیطس اور سرطان پاکستان میں قبل از وقت اموات کی وجہ
پاکستان: چھاتی کے سرطان کے خلاف پہلی طبی تحقیق میں اہم پیشرفت
کینسر کے مریض کُرٹ شروئڈر نے کہا کہ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے جسم میں کینسر کے خلیے دوبارہ ملے ہیں۔ مریضوں کی شناخت چھپانے کے لیے اس مضمون میں ان دونوں افراد کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ ''یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے، خصوصاﹰ جب سرطان پتے کا ہو۔ سرجری میں انہوں نے کینسر تو نکال لیا، مگر ابھی کچھ خلیات باقی ہیں۔ میری خواہش تو یہی ہے کہ کینسر کا کوئی خلیہ نہ بچے۔‘‘
شروئڈر کی عمر اکسٹھ برس ہے اور وہ تمام عمر صحت مند رہے ہیں۔ تاہم اگست دو ہزار بائیس میں ان میں سرطان کی تشخیصہوئی جب کہ اسی برس اکتوبر میں ان کی سرجری بھی ہو گئی۔ اس سرجری میں پتے کا سر اور چھوٹی آنت کا ڈوڈینم کہلانے والا حصہ نکال دیا گیا۔ اس کے بعد کیموتھیراپی کا مرحلہ تھا، جس کے ضمنی اثرات الٹیوں، ذائقے میں تبدیلی اور چکر آنے جیسے ہوتے ہیں۔ شروئڈر بتاتے ہیں، ''بریڈ کھاؤ تو لگتا تھا ریگ مال کھا رہا ہوں۔ کیلے کی مٹھاس چبھتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ میں کچھ بھی نہیں کھا سکتا تھا۔‘‘
پھر انہوں نے جرمن شہر میونسٹر میں واقع کینسر کونسلنگ مرکز کی سربراہ گُودرُون برنز سے رجوع کیا۔
کینسر کونسلنگ ابتدائی طبی امداد سے بڑھ کر
برنز نے طے کیا کہ وہ سائیکو اونکالوجی کا اپنا تجربہ یہاں استعمال کریں گی۔ یہ سائنسی شعبہ سن انیس سو ستر میں پنپا تھا۔ برنز کے مطابق، ''سائیکو اونکالوجی کینسر کی وجہ سے پیدا ہونے والی نفسیاتی اور سماجی تبدیلیوں سے نمٹتی ہے۔‘‘
مطالعاتی رپورٹوں کےمطابق سرطان کی تشخص کے بعد تقریباﹰ پچیس سے تیس فیصد تک مریض نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سائیکو اونکالوجی کونسلر ایسے میں مریضوں کو اس مشکل وقت سے دوبارہ روزمرہ زندگی کی جانب لوٹنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں مریضوں کو عملی مدد اور معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔
کُرٹ شروئڈر کے مطابق، ''برنز اس انسٹیٹوٹ میں بہت سے لوگوں کو جانتی ہیں۔ ان کے اتنے رابطے ہیں کہ انہیں خود بھی یاد نہیں رہتا۔ ظاہر ہے یہ اپنے آپ میں ہی زبردست مدد ہے۔ یعنی جب آپ کو علاج کے سلسلے میں مختلف مقامات پر مدد کی ضروررت ہو اور ایسے میں آپ کو مدد مل بھی جائے۔‘‘
سائیکو اونکالوجی کو ترجیح دی جانا چاہیے
بین الاقوامی سوسائٹی برائے سائیکو اونکالوجی کے اہم اہداف میں سے ایک کینسر سے جڑے نفسیاتی اور جذباتی امور پر توجہ دینا ہے تاکہ سرطان کے علاج کا عمل آسانی سے مکمل ہو اور عالمی سطح پر اس بابت حالات بہتر ہوں۔ اس سوسائٹی کا قیام سن انیس سو چوراسی میں ٹورانٹو اور نیویارک میں عمل میں آیا تھا۔ یہ تنظیم سائیکو اونکالوجی کو سرطان کے علاج کا لازمی جزو بنانے کے لیے کام کرتی ہے۔
سن دو ہزار بیس میں دنیا بھر میں انیس ملین افراد میں سرطان کی تشخیص ہوئی تھی۔ بین الاقوامی ایجنسی برائے تحقیقِ سرطان کے مطابق یہ تعداد اگلے برسوں میں بڑھنے کا امکان ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق دو ہزار بیس میں قریب دس ملین افراد اس بیماری سے ہلاک ہوئے جب کہ دو ہزار چالیس میں یہ تعداد سولہ ملین سے تجاوز کر سکتی ہے۔
رشتے داروں کو بھی مدد درکار
کینسر کی تشخیص فقط مریض کی زندگی ہی کو تہہ و بالا نہیں کر دیتی بلکہ اس مریض کے اہل خانہ کی زندگیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
مطالعاتی جائزوں کے مطابق سرطان کے مریضوں کے اہل خانہ بھی شدید ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ برنز کے مطابق، ''رشتے دار محسوس کرتے ہیں کہ انہیں متاثرہ شخص کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنا ہے اور ایسے میں وہ خود اپنی زندگی پر بھی ٹھیک سے توجہ نہیں دے سکتے۔ اگر ایسے میں وہ اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کا احترام کریں تو اخلاقی جواز اور ضمیر انہیں ملامت کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اس دوران سینما جانے یا کسی عام سی تفریحی سرگرمی کے دوران بھی انہیں اسی ذہنی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔‘‘
برنز کے مطابق اس سے فائدہ کسی کا نہیں ہوتا۔ وہ کہتی ہیں، ''یہ انتہائی ضروری ہے کہ رشتہ دار ایسے راستے تلاش کریں، جن سے ان کی اپنی توانائی بھی برقرار رہے۔‘‘
ع ت / م م (گُودرُون ہائزے)