کینیڈا میں دہشت گردی کے کثیر النسلی معاشرے پر اثرات
24 اکتوبر 2014کینیڈا میں یہ دہشت گردانہ حملہ ایک دوہرا حملہ تھا جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک پر کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ گزشتہ برسوں میں بھی کینیڈا میں کئی مرتبہ دہشت گردانہ حملوں کی کوششیں کی گئی تھیں، لیکن ایسی تمام کوششوں کو تب سکیورٹی اہلکاروں نے ناکام بنا دیا تھا۔ اس مرتبہ سلامتی کے ذمے دار کینیڈین ادارے اور اہلکار اپنی کوششوں میں ناکام رہے۔
چند ہی روز میں کینیڈا میں اسلام پسندوں کے حامی اور عسکریت پسندوں سے متاثر حملہ آوروں نے جو دو حملے کیے، انہوں نے کینیڈا کو بھی ایک ایسی جگہ بنا دیا ہے، جہاں عالمی سطح پر دہشت گردی کے مقابلے کی جدوجہد جاری ہے۔
کینیڈین عوام کے لیے شاید یہ بات زیادہ حیرانی کا باعث بنی ہو کہ دوسرا حملہ پہلے حملے کی طرح مانٹریال میں یا ملک کے کسی دوسرے بہت بڑے شہر میں نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لیے دہشت گردوں نے مقابلتاﹰ پرسکون اور انتہائی خوبصورت اوٹاوا کا انتخاب کیا۔ اگر یہ دوسرا حملہ بھی مانٹریال میں کیا جاتا تو عوامی ردعمل اس طرح کا نہ ہوتا جس طرح کا اب دیکھنے میں آیا ہے۔
جرمنی کے شہر ٹریئر کی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تاریخ کی خاتون پروفیسر اُرزُولا لیہم کُوہل کہتی ہیں کہ کینیڈین قوم کو سب سے بڑا دھچکا اس بات سے لگا کہ مانٹریال میں تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن اوٹاوا تو ایک چھوٹا سا خوابیدہ شہر ہے۔
پروفیسر لیہم کُوہل، جو جرمنی میں سوسائٹی برائے کینیڈین اسٹڈیز کی صدر بھی ہیں، کہتی ہیں کہ ان حملوں پر ملکی حکومت کا ردعمل فوری اور واضح تھا۔ قدامت پسند وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر نے نے قوم سے ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں بلاتاخیر واضح کر دیا کہ کینیڈا کو ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا اور اب اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بھی تیز ہو جائے گی۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز کے کینیڈین نژاد پروفیسر نیل میکفارلین کے مطابق انہیں یقین ہے کہ ان حملوں کے سیاسی نتائج سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اب کینیڈا میں سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے مخصوص اہداف کی نگرانی کے عمل میں یقینی طور پر اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔
پروفیسر میکفارلین کے بقول اب ایسے منظم گروپوں کے لیے، جنہیں کسی بھی حوالے سے القاعدہ یا اسلامک اسٹیٹ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ شناخت کیا جا سکے گا، حالات اور بھی مشکل بنا دیے جائیں گے۔ لیکن ممکنہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے عوامی زندگی میں زیادہ نگرانی کے عمل کا لازمی اثر اس کینیڈین معاشرے پر بھی پڑے گا، جسے ’’کثیر الثقافتی، کثیرالنسلی قوس قزح‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
کینیڈا کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 3.2 فیصد ہے، جن کی بہت بڑی اکثریت پرامن اور محب وطن ہے۔ ان حملوں کے بعد وہاں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں عمومی تاثر میں مزید ابتری کا بھی شدید خطرہ ہے۔