گائے ذبح کرنے والے مسلمان کے قاتل معصوم، رکن پارلیمان
11 اکتوبر 2015شمالی بھارت کے ایک گاؤں میں گائے ذبح کرنے کے شبے میں ایک مسلمان اور اس کی بیوی کو ہلاک کر دینے کے شبے میں پولیس اکیس مشتبہ افراد کو بظاہر حر است میں لے چکی ہے۔ بھارتی دارالحکومت سے تیس کلومیٹر کی دوری پر واقع اس گاؤں کی کشیدہ صورت حال کا جائزہ لینے قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ سنگیت سوم نے وہاں پہنچ کر مشتبہ قاتلوں کو معصوم قرار دے دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ جو ہلاک کر دیے گئے ہیں، اُن کے بارے میں وہ کیا کہیں گے، تو سوم نے انہیں صرف ’گائے مارنے والے‘ قرار دیا۔ مبصرین نے بھارت میں گائے کے گوشت یا بیف پر کی جانے والی پرتشدد سیاست کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔
چند روز قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاستدانوں نے ایک ریاستی اسمبلی میں ایک مسلمان رکن کو گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں تھپڑوں سے لال کر دیا تھا۔ اسی طرح جنوبی بھارت میں ایک تعلیمی ادارے میں چھ طلبا کو ادارے کی انتظامیہ نے تعلیمی سیشن سے اس لیے معطل کر دیا کہ انہوں نے اپنے دوستوں کو بیف کے ساتھ پکائی گئی ترکاری کھانے میں پیش کی تھی اور اس ’گھناؤنے‘ جرم کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری میں ایک کسان کی ہلاکت بھی ہوئی تھی۔ دو روز قبل بھارت کے ایک شمالی گاؤں میں بھی گائے ذبح کرنے پر کٹر ہندوؤں نے کئی کاروں اور دکانوں کو جلا دیا تھا۔ اس دنگے میں پولیس کے علاوہ کئی دیہاتی بھی زخمی ہوئے تھے۔ چھان بین سے معلوم ہوا تھا کہ مسلمان ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے قریب ایک گاؤں میں محمد اخلاق نامی شخص کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئےایک ہندو پنڈت رام منڈل داس کا کہنا تھا کہ وہ گائے کا دودھ پیتے ہیں، خون نہیں، اگر کوئی ’گاؤ ماتا‘ کو کاٹے گا تو عوامی ردعمل ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی حامیوں پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ دانستہ طور پر ہندوؤں کو بیف کے معاملے پر اشتعال دلا رہے ہیں اور وہ اس کا منفی اثر بھارتیہ جنتا پارٹی پر ڈال کر اگلے انتخابات سے قبل مجموعی بھارتی سیاست میں تبدیلی لانے کے متمنی ہیں۔ ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مقتول محمد اخلاق کے گاؤں میں بقیہ مسلمان فیملی کو ایک سو کے قریب ہندووں نے اپنی حفاظت میں لے رکھا ہے۔
بھارت سمیت دنیا بھر میں ہندو مت کے پیروکار گائے کی پوجا ایک ماں کے طور پر کرتے ہیں۔ قدیمی دور میں گائے کی ہندو دیوتا کرشن سے نسبت اس پوجا کے لیے اہم خیال کی جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مذہبی حیثیت کا حوالہ اپنی جگہ لیکن اب گائے پر سیاست ایک کاروبار بنتا چلا جا رہا ہے اور اس عمل میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ گائے پر سیاست کئی ایک سیاسی پارٹیوں کے لیے مقبولیت حاصل کرنے کا ایک سہارا بن چکا ہے اور ان میں خاص طور پر قوم پرست ہندو گروہ سب سے آگے ہیں۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کا تعلق بھی کٹر سوچ کی حامل سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے۔ ایک بھارتی سیاسی تجزیہ کار اندر ملہوترا کے مطابق مودی خاموشی اس لیے اختیار کیے ہوئے ہیں کہ وہ اپنا ہندو ووٹ بینک ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
اس منافرت آمیز سیاست پر پہلی مرتبہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ جمعرات کو لب کشائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی منافرت پر مبنی تقسیم سے بھارت کی اقتصادی ترقی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ مودی کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہندوؤں نے غربت کے خلاف جنگ کرنی ہے یا مسلمانوں کے خلاف۔ مودی نے بھارت کی اجتماعی ترقی میں اتفاق و اتحاد، مذہبی ہم آہنگی، بھائی چارے اور سماجی امن کو اہم قرار دیا تھا۔ دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی بھی منافرت کی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے ہیں اور ان کے دور میں بھارتی ہندو بیف کی فروخت پر ملک گیر پابندی کا زور دار مطالبہ کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد مودی اس کوشش میں ہیں کہ دنیا میں اُن کا امیج ایک اعتدال پسند سیاستدان کے طور پر محسوس کیا جائے۔
یہ امر اہم ہے کہ بھارت کی کئی ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنا خلافِ قانون ہے اور اس کے گوشت کی فروخت پر بھی سخت پابندی ہے یا انتہائی محدود سطح پر فروخت کیا جاتا ہے۔ بھارت کی ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی میں 81 فیصد ہندو اور تیرہ فیصد مسلمان ہیں۔