گولڈ میڈل جیتنے والا انعام انعام کا منتظر
18 اکتوبر 2010لاہور سے 55 کلو میٹر دور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے محمد انعام نے دہلی میں منعقدہ حالیہ دولت مشترکہ کھیلوں میں ریسلنگ میں سب سے مشکل سمجھی جانے والی 84 کلو گرام کیٹیگری میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔ ریڈیو ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں انعام کا کہنا تھا کہ اُن کی کامیابی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔
انعام نے بتایا، ’ میں نے استاد کی ہدایت پر ایونٹ کی تیاری کے لئے عید کے دن بھی چھٹی نہ کی۔ اب کامیابی کے بعد دنیا ہی بدل گئی ہے اور لگتا ہے کہ مجھے میرے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہے۔ وطن واپسی پر لاہور ایئر پورٹ سے گوجرانوالہ تک پُرجوش استقبال اور تحسین کے ذریعہ عوام نے اپنا حق ادا کر دیا ہے مگر کسی اعلیٰ شخصیت کی جانب سے تاحال کوئی فون کال تک موصول نہیں ہوئی‘۔
انہوں نے کہا کہ جب ہاکی یا کرکٹ کے کھلاڑی ورلڈ کپ جیتیں تو انہیں حکومت سے لے کر نیچے تک ہر کوئی سر پر بٹھاتا ہے مگر صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے مبارکباد کے ایک زبانی پیغام کے علاوہ تاحال ہمیں کسی نے پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا اور اُنہیں اِس بات پر افسوس ہے۔
پاکستان میں ریسلنگ کے لئے سہولتوں کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے انعام نے بتایا کہ پاکستانی ریسلرز دنیا کے ساتھ اپنا موازنہ نہیں کر سکتے۔ پورے پاکستان میں ریسلنگ کے محض آٹھ میٹ ہیں جبکہ بھارت، جس کے مقابلے پر ہم مر مٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں، وہاں صرف دہلی شہر میں 16میٹس کی سہولت میسر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انعام نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ وہ گوجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ میں واقع اور از سر نو تعمیر کئے جانے والے اُن کے کلب جناح ہیلتھ کے منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے میں مدد دے۔ محمد انعام نے کہا کہ جناح ہیلتھ کلب کی بنیاد اُن کے استاد چوہدری شبیر نے رکھی تھی۔ انعام کے مطابق جناح ہیلتھ کلب ماضی میں بھی پاکستا ن کے لئے عالمی سطح کے ریسلرز پیدا کر چکا ہے اور اگر اس پر توجہ دی جائے اور میٹ فراہم کیا جائے تو کل اُن کی طرح کے اور چیمپئن بھی وہاں سے تیار ہو کر نکلیں گے۔
21 سالہ محمد انعام کو، جو پنجاب یونیورسٹی میں ایم بی اے کے طالبعلم ہیں، ریسلنگ کا فن ورثے میں ملا ہے۔ انعام نے بتایا کہ اُن کے دادا اور والد بھی ریسلر تھے اور یہ کہ ’وہ خود تو کوئی عالمی ٹائٹل نہ جیت سکے مگر اپنا پیٹ کاٹ کر اُنہوں نے مجھے ضرور اس مقام تک پہنچایا ہے، جس پر مجھے بجا طور پر فخر ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں انعام نے کہا کہ چین میں مجوزہ ایشین گیمز کی تیاری کے لئے انہیں بہت کم وقت میسر آ رہا ہے مگر ان کی کوشش ہوگی کہ ایشیائی کھیلوں میں بھی پاکستانی شائقین کو سرپرائز دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کا اصل ہدف لندن اولمپکس2012ء کے لئے کوالیفائی کرنا ہے۔
محمد انعام سے قبل کامن ویلتھ گیمز ریسلنگ میں پاکستان کو 40 برس کے صبر آزما انتظار کے بعد پہلا گولڈ میڈل پاکستان آرمی کے اظہر حسین نے جیتا ۔ اُن کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔ 55 کلو گرام فری سٹائل ریسلنگ میں نائجیریا کے پہلوان کو شکست دے کر طلائی تمغہ پاکستان کے سینے پر سجانے والے اظہر حسین کا گھر جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں کے ایک گاﺅں میں واقع ہے۔ اُن کا گھر اِس موسمِ گرما کے ہولناک سیلاب کی نذر ہو گیا تھا مگراظہر حسین کو گیمز کی ٹریننگ کی خاطر سیلاب کے بعد عید پر بھی گھر جانے کی اجازت نہ دی گئی۔
اظہر حسین نے بتایا کہ جب وہ گولڈ میڈل لے کر گاﺅں پہنچے تو ہرکوئی آفت کا دکھ بھلا کر اُن کی خوشیوں میں شریک ہو گیا۔ اُن کے والد غلام قادر، جو خود بھی ریسلر رہ چکے ہیں، اس موقع پر خوشی اور شدت جذبات سے آبدیدہ ہو گئے۔ جب اُنہوں نے اپنے والد کو بتایا کہ آج پورا پاکستان اُن پر خوش ہے، وہ رو کیوں رہے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔
26 سالہ اظہر حسین نے کہا کہ وہ پاکستان فوج کے شکر گزار ہیں، جس نے انہیں نوکری کے ساتھ ساتھ ایسی تربیت دی کہ انہوں نے بھارت کی سرزمین پر پاکستان کا پر چم بلند کر دیا، اِس بات کی خوشی ناقابل بیان ہے۔ اظہرکا کہنا ہے کہ انہوں نے میڈل جیت کر اپنا حق ادا کر دیا ہے، اب امید ہے کہ حکومت بھی اپنے وعدے پورے گی۔
انعام اور اظہر نے دہلی میں ایک مرتبہ پھرباور کروا دیا کہ پاکستانی مٹی کھیلوں کے لئے بڑی زرخیز ہے مگر یہ بات ساقی کی سمجھ میں کتنی آئی، ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی کوئی نہیں جانتا۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امجد علی