گیتا بھارت لوٹ گئی، ایدھی کی انسان دوستی کی ایک اور مثال
26 اکتوبر 2015بالآخر پیر کے روز گیتا کا اپنے خاندان کے ساتھ ملن ہو گیا، حالاں کہ یہ طے نہیں ہے کہ یہ وہی خاندان ہے جس سے گیتا گیارہ یا بارہ برس کی عمر میں بچھڑی تھی۔ بھارتی حکام کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم کیا جائے گا کہ آیا یہ گیتا ہی کا خاندان ہے۔
گیتا نو عمری میں غلطی سے پاک بھارت سرحد عبور کر کرے پاکستان داخل ہوئی تھی۔ وہ طویل عرصے پاکستان میں اس لیے پھنس کر رہ گئی تھی کہ وہ اپنی یا اپنے خاندان کی شناخت کے بارے میں کسی کو بتانے کے قابل نہیں تھی۔ پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن نے گیتا کی دیکھ بھال کی، اور یہ معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی اور ان کی بیگم بلقیس ایدھی کا ہی کمال ہے کہ گیتا آج اپنے وطن میں ہے۔ گیتا نام بھی اس لڑکی کو ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سےہی ملا تھا۔
نئی دہلی کے فضائی اڈے پر گیتا کا شان دار استقبال کیا گیا۔ یہاں حکومتی اہل کاروں کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی بڑی تعداد بنی موجود تھی۔ گیتا نے مسکراتے ہوئے پھولوں کے گل دستے قبول کیے اور لوگوں کے ساتھ تصاویر کھنچوائیں۔
گیتا اگر آج اپنوں کے ساتھ بھارت میں ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ ایدھی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ایدھی فاؤنڈیشن نے اس گونگی بہری لڑکی کی دیکھ ریکھ کی، بلکہ اس کو اپنے عقائد کے حساب سے عبادت کرنے کی بھی پوری اجازت تھی۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق ایدھی نے گیتا کے لیے ایک کمرے میں مندر بھی بنوا دیا تھا جہاں لوگوں کا جوتے پہن کر آنا منع تھا۔
بھارتی اداکار سلمان خان کی سپر ہٹ فلم ’بجرنگی بھائی جان‘ کی وجہ سے بھی گیتا کو خاصی شہرت ملی۔ یہ فلم بھی گیتا ہی کہانی سے ماخوز تھی، جہاں ایک نو عمر لڑکی غلطی سے پاکستان پہنچ جاتی ہے اور اس کو واپس لانے کے لیے فلم کے ہیرو سلمان خان جدوجہد کرتے ہیں۔ سلمان خان نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے گیتا سے بات چیت بھی کی تھی، جس کا اہتمام ایدھی فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔
گیتا کی کہانی اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تر ہوتے تعلقات میں انسان دوستی کی ایک زبردست اور دل آویز مثال ہے۔
سوشل میڈیا پر بحث
بھارت میں بہت سے افراد اور ذرائع ابلاغ ایدھی کی کوششوں کو سراہ رہے ہیں۔ وہ ایدھی اور ایدھی فاؤنڈیشن کے بارے میں بھارتی عوام کو معلومات بھی فراہم کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ گیتا کی بھارت واپسی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہونے کے علاوہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پاکستانی فن کاروں، کھلاڑیوں اور سفارت کاروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست مہاراشٹر میں حلیف جماعت شیو سینا بھارتی مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے اور گائے کا گوشت کھانے پر بھی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس صورت حال میں گیتا اور ایدھی کی کہانی امن و آشتی کا ایک خوب صورت پیغام دیتی ہے۔
دوسری جانب ڈی ڈبلیو کے فیس بک پیج پر بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے۔ اکثریت ایدھی صاحب کی تعریفیں کر رہی ہے اور اپنے اس دیرینہ مطالبے کو دہرا رہے ہیں کہ ایدھی کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا جائے۔ تاہم بعض افراد اس بات پر خوش نہیں کہ ایدھی نے ایک ہندو لڑکی کے ساتھ اتنا احسن سلوک کیا۔
اس حوال سے شہزاد خان لکھتے ہیں: ’’ایدھی صاحب کو انسانیت کی خدمت کے صلے میں نوبل امن انعام دیا جانا چاہیے۔‘‘
تاہم فیاض علی ایدھی کی جانب سے گیتا کو مندر فراہم کرنے پر ناخوش ہیں۔ بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو بھارت کی چمچا گیری کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔