ہانگ کانگ، حکومتی عمارتیں مظاہرین کے ٹارگٹ پر
2 اکتوبر 2014ہانگ کانگ میں ہزاروں مظاہرین وسیع تر سیاسی و جمہوری اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس عوامی تحریک کے مرکزی منتظم گروہ ’اوکوپائی سینٹرل‘ کے رہنماؤں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو وہ سرکاری عمارتوں پر دھاوا بول دیں گے۔ بیجنگ حکومت اور ہانگ کانگ کے چین نواز چیف ایگزیکٹیو نے مظاہرین کی دھمکیوں کو نظر انداز کر رکھا ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ جمعرات کی صبح سینکڑوں مظاہرین نے لیونگ چُن یِنگ کے دفتر کے دو دروازوں کو بلاک کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس مقام پر سکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد تعینات ہیں لیکن انہیں کسی بھی ممکنہ تصادم سے رکے رہنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ لیونگ باہر نکلیں اور ان کے سوالات کا جواب دیں ورنہ دوسری صورت میں وہ اپنا پرامن احتجاج جاری رکھیں گے۔
گزشتہ رات بھی بالخصوص نوجوان مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر گزاری۔ اس احتجاجی سلسلے کو شروع ہوئے تقریبا ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔ ان مظاہرین نے بدھ کے دن بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکالیں، جس کی وجہ سے ہانگ کانگ میں کمیونسٹ چین کے قومی دن کی تقریبات ماند پڑ گئیں۔
اگرچہ ابھی تک ان مظاہرین کے خلاف بیجنگ حکومت کا ردعمل شدید نہیں ہوا ہے لیکن چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پرامن طریقے سے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ امریکا کا دورہ کر رہے وانگ یی نے واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ چین کا اندرونی معاملہ ہے اور اس میں کوئی ملک بھی دخل اندازی نہ کرے۔ قبل ازیں امریکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ واشنگٹن ہانگ کانگ کے حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔
سابق برطانوی نوآبادی ہانگ کانگ میں 2017ء میں پہلے جمہوری انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے لیکن اس الیکشن میں صرف وہی امیدوار شریک ہو سکیں گے، جن کی حتمی منظوری چین سے ملے گی۔ دوسری طرف ہانگ کانگ میں مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے آئندہ رہنما کے انتخاب کا کھلا اختیار ہونا چاہیے۔ ایک معاہدے کے تحت 1997ء میں چین کا حصہ بننے کے بعد ہانگ کانگ میں یہ سب سے بڑا حکومت مخالف احتجاج ہے۔کئی ناقدین کے بقول چینی حکومت کو 1989ء میں تیانمن اسکوائر کے مظاہرے کے بعد اس وقت سے بڑی ’بغاوت‘ کا سامنا ہے۔
ہانگ کانگ میں ان مظاہروں کے نتیجے میں روزمرہ نزدگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ٹریفک نظام کے متاثر ہونے کے علاوہ متعدد علاقوں میں اسکول، کاروباری مراکز اور دکانیں بھی بند ہیں۔ اس کشیدہ صورتحال نے ہانگ کانگ کی اسٹاک مارکیٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے لیونگ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ مظاہرین کو کئی ہفتوں تک احتجاج کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مظاہرین کی طرف سے لوٹ مار، تشدد یا کوئی پرتشدد کارروائی نہیں کی جاتی تو سکیورٹی فورسز مداخلت نہیں کریں گی۔