’ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں؟‘
4 فروری 2021امریکی پاپ اسٹار ریحانہ کے ایک مختصر ٹوئٹ کے جواب میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کے رد عمل پر بھارت میں حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ عا م طور پر کسی فرد کے بیان پر کبھی بھی ردعمل کا اظہار نہیں کرتا ہے۔
دراصل پاپ سنگر ریحانہ نے بھارت میں متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف پچھلے دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری کسانوں کی تحریک کے متعلق سی این این کی ایک رپورٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک مختصر سے جملے کا ٹوئٹ کیا”ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کررہے ہیں؟" اپنے متنازعہ بیانات کے لیے مشہور بالی ووڈ کی اداکارہ کنگنا راناوت نے ریحانہ کو 'بے وقوف‘ قرار دیتے ہوئے جواباً ٹوئٹ کیا ”اس لیے بات نہیں کر رہے کیوں کہ وہ کسان نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں اور بھارت کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں..."
ریحانہ کے ٹوئٹ کے بعد ماحولیات کے لیے سرگرم کارکن گریٹا تھنبرگ، امریکی نائب صدر کمالا ہیرس کی بھانجی اور ادیبہ مینا ہیرس، سابق اداکارہ اور اینکر میا خلیفہ اور کئی دیگر بین الاقوامی شخصیات نے بھی کسانوں کی تحریک کی حمایت میں ٹوئٹ کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کا ردعمل
بات شاید آگے نہیں بڑھتی لیکن بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کے بعد 'ٹوئٹر جنگ‘ چھڑ گئی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے کسانوں کی حمایت پر عالمی شخصیات کی ٹوئٹس کو بد قسمتی قرار دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ بھارت کے حوالے سے کوئی بیان دینے سے قبل حقائق کو دیکھ لیں۔ انہوں نے لکھا کہ زرعی قوانین بھارتی پارلیمنٹ نے منظور کیے ہیں اور صرف چند لوگ اسے تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔
وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ بھی میدان میں
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ بھی ٹوئٹر کی اس جنگ میں کود پڑے۔ انہوں نے لکھا”کوئی بھی پروپیگنڈہ بھارت کے اتحاد کو نہیں توڑ سکتا، کوئی پروپیگنڈہ بھارت کو نئی بلندیوں تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا، پروپیگنڈہ بھارت کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتا..."
وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا”بھارت کو نشانہ بنانے والی خود غرضی پر مبنی مہم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی...بھارت ہر حملے کا جواب دے گا۔"
اداکار، کھلاڑی، فن کار بھی شامل
ان بھارتی رہنماوں کے بیانات کے بعد تو ٹوئٹر پر بیان بازی کا ایک طوفان آ گیا۔ بھارت کے اعلی ترین سویلین اعزاز 'بھارت رتن‘ یافتہ گلوکارہ لتا منگیشکر اور کرکٹر سچن تندولکر کے علاوہ وراٹ کوہلی، انیل کمبلے، روی شاستری سمیت کئی دیگر کرکٹ کھلاڑی، بالی ووڈ اداکار اکشے کمار، اجے دیو گن، سنیل شیٹی، ہیما مالنی، پروڈیوسر ایکتا کپور اور کرن جوہر سمیت درجنو ں اہم شخصیات نے اپنے اپنے ٹوئٹ میں حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کے داخلی معاملا ت میں مداخلت کرنے پر بیرونی شخصیات کی نکتہ چینی کی۔
کسانوں کی تحریک کے حامیوں نے بھی ٹوئٹر پر جوابی حملے شروع کر دیے۔ انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت کس طرح اپنے پڑوسی ملک پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، میانمار، افغانستان وغیرہ کے داخلی معاملات پر بیان دیتا رہا ہے۔ حتی کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی آئی ٹی سیل نے اس ٹوئٹر جنگ کو بھارت بمقابلہ پاکستان کرنے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے ریحانہ کی ایک فوٹو شاپ تصویر ٹوئٹ کی جس میں ریجانہ کو پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے دکھایا گیا تھا جبکہ اصل تصویر میں ریحانہ نے ویسٹ انڈیز کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔
خیال رہے کہ ریحانہ کیریبیائی جزیرے میں واقع ملک بارباڈوس کی رہنے والی ہیں۔ کافی دیر بعد بی جے پی کی'ٹرول آرمی‘ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
'شرمناک‘
ایک گلوکارہ کے بیان پر بھارت کی جانب سے اس طرح کے ردعمل پر یہاں حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے سابق نائب وزیر خارجہ ششی تھرور نے اسے 'شرمناک‘ قرار دیا۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا”مغربی شخص کے بیان پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے بھارت کی معروف شخصیات کو استعمال کرنا شرمناک ہے۔ حکومت نے اپنے غیر جمہوری طرز عمل سے بھارت کے عالمی امیج کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا ازالہ کسی کرکٹر کے ٹوئٹ سے نہیں ہوسکتا ہے۔"
سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ اچھی بات ہے کہ ریحانہ اور گریٹا تھنبرگ نے بھارتی وزارت خارجہ کو نیند سے جگا دیا۔ انہوں نے لکھا”بھارتی وزارت خارجہ آپ کب اس حقیقت کا ادراک کریں گے کہ انسانی حقوق اور معاش جیسے مسائل قومی سرحدوں تک محدود نہیں رہتے؟ بھارتی وزارت خارجہ نے میانمار میں فوجی بغاوت پر تبصرہ کیوں کیا تھا؟ سری لنکا اور نیپال کے داخلی معاملات پر مستقل بیانات کیوں جاری کرتا رہتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے کیپیٹل ہل پر حملے پر بیان کیوں دیا تھا۔"
خیال رہے کہ غیرملکی سربراہ کے طور پر کینیڈیائی وزیراعظم نے سب سے پہلے گزشتہ دسمبر میں کسانوں کی حمایت میں بیان دیا تھا۔ بھارت نے کینیڈا کے سفیر کو طلب کرکے اس پر سخت اعتراض کیا تھا اور وارننگ دی تھی کہ اس کے باہمی تعلقات پر سنگین اثرات پڑ سکتے ہیں۔
برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے متعدد ممبران پارلیمان بھی بھارتی کسانوں کی تحریک کے حق میں بیانا ت دے چکے ہیں۔
اس دوران امریکی وزارت خارجہ نے بھارتی کسانوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بدھ کے روز کہا کہ انٹرنیٹ سمیت اطلاعات کے دیگر وسائل تک بلا روک ٹوک رسائی اور پرامن احتجاج جمہوریت کی شناخت ہے۔ دوسری طرف دہلی پولیس نے گریٹا تھنبرگ کے خلاف معاملہ درج کر لیا ہے۔ گریٹا نے ایک ٹوئٹ کرکے تاہم کہا کہ وہ کسانوں کی حمایت جاری رکھیں گی۔