ہندو لڑکیوں کا قبول اسلام، معاملہ سپریم کورٹ میں
26 مارچ 2012چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے سے متعلق قانون سازی کے لیے پاکستان ہندوکونسل کی درخواست کی سماعت کی۔
اس موقع پر فریال (رنکل) اور حفضہ (لتا) کو سندھ پولیس کے کڑے پہرے میں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ چیف جسٹس نے پہلے فریال کو بیان دینے کے لیے بلایا تو وہ اپنی تعلیم اور زبان سے متعلق سوالات کے جواب دینے میں ہچکچائی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لڑکی سخت دباؤ میں لگتی ہے، اس لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ اس سے تنہائی میں بیان لیا جائے۔ چیف جسٹس کے حکم پر کمرہ عدالت میں موجود فریال اور حفضہ کے رشتہ داروں، پولیس اور دونوں لڑکیوں کے شوہروں کے علاوہ وکلاء اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی تھوڑی دیر کے لیے باہر بھجوا دیا گیا۔
بعد ازاں فریال (رنکل) نے ماں باپ کے ساتھ جانے جبکہ ڈاکٹر حفضہ (لتا) نے شوہر نادر بیگ کے ہمراہ جانے کا بیان دیا۔ اس پر لتا کے والد ڈاکٹر رمیش کمار نے عدالت میں شور مچانا شروع کر دیا کہ ان کی بیٹی نے دباؤ میں یہ بیان دیا ہے اس پر انہیں کمرہ عدالت سے باہر لے جایا گیا۔
عدالت نے بیانات سننے کے بعد سندھ پولیس کو ہدایت کی کہ وہ دونوں لڑکیوں کو بحظافت کراچی میں قائم ‘‘پناہ’’ نامی شیلٹر میں پہنچائیں تا کہ وہ دباؤ سے آزاد ہو کر فیصلہ کر سکیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں۔ عدالت نے آئی جی سندھ کو جیکب آباد سے لاپتہ ہونے والی ایک ہندو لڑکی آشا کی بازیابی کا بھی حکم دیا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فریال کی خالہ نیشاردہ نے کہا کہ ان کی بھانجی رنکل اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے اور انہیں ہر حال میں رنکل کماری چاہیے۔ انہوں نےکہا کہ ’’وہ رو پڑی تھی۔ رنکل کماری کہہ رہی تھی کہ میں امی کے ساتھ جاؤں گی، میں گھر جاؤں گی مجھے ادھر نہ چھوڑو‘‘۔
پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس طریقے سے اس ماحول میں تیرہ سے پچیس سال کے بچیوں کو، جو اپنے فیصلے بھی خود کرنے کے قابل نہیں، ان کو ہتھیاروں کے سائے میں اغوا کیا جاتا ہے۔ اغوا کے بعد کم سے کم بیس دن تک ان کا پتہ نہیں چلتا۔ اس طریقے سے بچیوں کو جبری طور پر مذہب تبدیل کرایا جا رہا ہے‘‘۔
دوسری جانب ضلع گھوٹکی سے حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی اور علاقے کی مذہبی شخصیت میاں عبدالحق عرف میاں مٹھا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان پر ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کرانے کا الزام غلط ہے۔ میاں مٹھا کے صاحبزادے میاں اسلم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں لڑکیوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور مسلمان لڑکیوں سے شادیاں کیں:’’ہم پہلے مسلمان ہیں، اس کے بعد پاکستانی ہیں، پھر سیاستدان ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ ہم شروع سے ہندو لڑکیوں کو مسلمان کرتے رہے ہیں اور ہم نے ان لڑکیوں کا ساتھ دیا ہے، دیتے رہیں گے۔ مزید لڑکیاں آئیں گی تو ان کا ساتھ بھی دیں گے۔‘‘
عدالت نے دونوں لڑکیوں کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت 18 اپریل تک ملتوی کر دی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ہندو لڑکیوں کی جبری شادیوں اور مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے آواز اٹھاتی آئی ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: امجد علی